وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ
اور اگر یہ اپنے عہد و پیمان جو خود کرچکے ہیں توڑ ڈالیں اور تمہارے دین کو برا بھلا کہیں تو پھر (اس کے سوا چارہ نہیں کہ ان) کفر کے سرداروں سے جنگ کرو، یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی سوگند سو گند نہیں (اور تمہیں جنگ اس لیے کرنی چاہیے) تاکہ یہ (ظلم و بد عہدی سے) باز آجائیں۔
[١١] ذمیوں کی معاندانہ سرگرمیاں :۔ اس آیت کے مفہوم میں وہ کافر و مشرک قبائل بھی شامل ہیں جو اعلان برأت سے پیشتر اپنے عہد توڑتے اور دین میں طعنہ زنی کرتے رہے اور وہ بھی شامل ہیں جو اعلان برأت کے بعد بظاہر اسلام لے آئے لیکن ان کے دل اسلام کی طرف ہرگز مائل نہیں تھے بلکہ وہ محض وقتی مصلحت اور مسلمانوں کے غلبہ کے دباؤ کے تحت اسلام لائے تھے اور کسی مناسب موقع کے منتظر تھے کہ کب وہ اسلام میں کوئی کمزوری دیکھیں تو اپنے اسلام لانے کے عہد کو توڑ دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تو انہیں ایسا موقع میسر نہ آیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فوراً انہوں نے اس عہد کو توڑ ڈالا اور پھر سے مرتد ہوگئے کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اسلام کو جو کچھ غلبہ اور شان و شوکت حاصل ہوئی ہے وہ صرف رسول اللہ کے دم قدم سے تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد ایسے قبائل نے پوری قوت کے ساتھ بغاوت کا علم بلند کردیا اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے مصداق ان کی ٹھیک ٹھیک سرکوبی کی۔ توہین رسالت کی سزا موت :۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی اسلامی حکومت میں رہنے والے اہل الذمہ دین اسلام کا تمسخر اڑائیں یا طعنہ زنی کریں تو ان کا معاہدہ ختم اور ان کی سرکوبی کرنا اسلامی حکومت کا فرض ہوتا ہے اور یہ بھی کہ جو ذمی یا کوئی دوسرا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی کوئی باتیں کرے وہ واجب القتل ہے کیونکہ یہ دین میں طعنہ زنی کی ایک بدترین قسم کا جرم ہے۔