وَالَّذِينَ آمَنُوا مِن بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَٰئِكَ مِنكُمْ ۚ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اور جو لوگ بعد کو ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا تو وہ بھی تم ہی میں داخل ہیں۔ (انہیں اپنے سے الگ نہ سمجھو) اور (باقی رہے) قرابت دار تو وہ اللہ کے حکم میں ایک دوسرے کی میراث کے زیادہ حقدار ہیں (پس باہمی بھائی چارگی میں ان کے حقوق فراموش نہ کردیے جائیں) بلا شبہ اللہ ہر بات کا علم رکھتا ہے۔
[٧٧] یعنی ان بعد والوں میں اسلام لانے، ہجرت کرنے اور جہاد میں شامل ہونے والوں کے قانونی حقوق بالکل وہی ہوں گے جو ﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ﴾ کے ہیں۔ کیونکہ اب یہ سب ایک برادری میں منسلک ہوچکے ہیں۔ تقدیم و تاخیر کی وجہ سے ان کے فرائض و حقوق میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ معاہدات میں وہ برابر کے شریک ہوں گے۔ صلح و جنگ اور وراثت وغیرہ کے احکام میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ [٧٨] مواخات کی بنا پر احکام وراثت کا منسوخ ہونا :۔ اس جملہ کی رو سے نیز سورۃ نساء کی آیت نمبر ٣٣ کی رو سے وراثت کے اصل حقدار قریبی رشتہ دار ہی قرار پائے اور مہاجرین و انصار مواخات کی بنا پر جو ایک دوسرے کے وارث بن جاتے تھے۔ وہ حکم منسوخ ہوا اس لیے کہ اب مہاجرین کی معاشی حالت بہت بہتر ہوچکی تھی۔ البتہ ایسے بھائیوں کے لیے وصیت، حسن سلوک اور مروت اور دینی بھائی چارہ کی ہدایات بدستور برقرار ہیں، اور وراثت کے احکام میں یہ تبدیلی اس لیے ہوئی کہ اللہ مسلمانوں کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے۔