سورة البقرة - آیت 115

وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور دیکھو، پورب ہو یا پچھم ساری دنیا اللہ ہی کے لیے ہے (اس کی عبادت کسی ایک رخ اور مقام ہی پر موقوف نہیں) جہاں کہیں بھی تم اللہ کی طرف رخ کرلو اللہ تمہارے سامنے ہے۔ بلاشبہ اس کی قدرت کی سمائی بڑی ہی سمائی ہے، اور وہ سب کچھ جاننے والا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٣٥]نماز میں قبلہ رخ ہونا:۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر نفل ادا کر رہے تھے اور سواری کسی بھی سمت کو رخ کرلیتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مکہ سے مدینہ آ رہے تھے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہی آیت پڑھی اور فرمایا کہ یہ آیت اسی باب میں ہے (ترمذی ابو اب التفسیر زیر آیت بالا) ایک روایت میں یہ ہے کہ ایک سفر میں صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ رات اندھیری تھی ہر ایک کو قبلہ جدھر معلوم ہوا نماز ادا کرلی اور نشان کے طور پر پتھر رکھ لیے صبح کو معلوم ہوا وہ بعض لوگوں نے غلط سمت میں نماز ادا کی ہے۔ ان کو تردد ہوا تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اور قتادہ سے مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور اس کی ناسخ ﴿فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ﴾ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر زیر آیت بالا) واضح رہے کہ وحدت الوجود کے قائل صوفی حضرات اس آیت کو وحدت الوجود کی صحت پر دلیل کے طور پر پیش فرمایا کرتے ہیں۔ چنانچہ خواجہ حسن سنجری فرماتے ہیں کہ کافراں سجدہ کہ بروئے بتاں مے کردند ہمہ اوسوئے تو بود و ہمہ سو روئے تو بود یعنی کافر جو بتوں کو سجدہ کرتے ہیں تو ان کا منہ دراصل تیری ہی طرف ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر طرف تیرا ہی چہرہ ہوتا ہے۔ اس آیت کے نزول کا سبب اور اس کے منسوخ ہونے کے متعلق ہم اوپر لکھ چکے ہیں۔ اس کے باوجود اگر ان حضرات کے اس نظریہ کو درست سمجھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر تحویل قبلہ کی آخر کیا ضرورت اور اہمیت تھی جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی سورۃ بقرہ میں ٩ آیات نازل فرمائیں؟ سنجری صاحب کے اس شعر سے یہ ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ جب انسان پہلے سے ذہن میں ایک نظریہ قائم کر کے پھر سے قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کس حد تک کج فکری سے کام لے سکتا ہے۔ چنانچہ سنجری صاحب نے بت پرستوں کو بت پرستی کے فعل کی بھی تحسین فرما کر اسے درست قرار دے دیا۔ [ ١٣٦] یعنی اللہ تعالیٰ تنگ نظر اور تنگ دل نہیں، بلکہ اس کی خدائی بھی وسیع، زاویہ نظر بھی وسیع اور دائرہ فیض بھی وسیع ہے۔ لہٰذا اگر قبلہ کی تلاش میں خطا ہو بھی جائے تو وہ قابل گرفت نہیں وہ خوب جانتا ہے کہ اس کا فلاں بندہ کہاں، کس وقت اور کس نیت سے یاد کر رہا ہے۔