وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ
اور (مسلمانو) جہاں تک تمہارے بس میں ہے قوت پیدا کر کے اور گھوڑے تیار رکھ کر دشمنوں کے مقابلہ کے لیے اپنا سازو سامان مہیا کیے رہو کہ اس طرح مستعد رہ کر تم اللہ کے (کلمہ حق کے) اور اپنے دشمنوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھو گے۔ نیز ان لوگوں کے سوا اوروں پر بھی جن کی تمہیں خبر نہیں۔ اللہ انہیں جانتا ہے۔ اور (یاد رکھو) اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد کی تیاری میں) تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا پورا مل جائے گا۔ ایسا نہ ہوگا کہ تمہاری حق تلفی ہو۔
[٦٢] سامان حرب و فنون سپہ گری کی ترغیب :۔ یعنی مسلمانوں کو عام حالات کے علاوہ کسی غدار معاہد کے ہنگامی حملہ کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی ہر وقت جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو اسلحہ جنگ مہیا رکھنا چاہیے۔ اس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ تمہارے کھلے اور چھپے دشمن سب تم سے مرعوب رہیں گے اور اس غرض پر جتنا بھی تمہارا خرچ ہوگا سب فی سبیل اللہ شمار ہوگا، اور اس کا تمہیں اللہ تعالیٰ سے پورا پورا اجر مل جائے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اسلحہ جنگ میں تیر، نیزے، تلوار اور جنگی گھوڑے ہوتے تھے۔ اور دفاعی سامان میں ڈھال، زرہ اور خود وغیرہ تھے اور جنگی تربیت کے لحاظ سے پہلا نمبر تیر اندازی کا تھا۔ مسلمانوں کی جنگی ترتیب اور سامان حرب کے استعمال اور فراہمی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلچسپیوں کا اندازہ درج ذیل احادیث سے ہوتا ہے۔ ١۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برسر منبر یہ آیت پڑھی اور فرمایا کہ قوت سے مراد تیر چلانا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین بار دہرایا اور فرمایا۔ سن لو! اللہ تعالیٰ تمہیں زمین میں فتح دے گا اور محنت سے کفایت کرے گا۔ لہٰذا کوئی بھی تم میں سے اپنے تیروں سے کھیلنے میں سستی نہ کرے (ترمذی، ابو اب التفسیر) ٢۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے تیر اندازی سیکھی، پھر اسے چھوڑ دیا وہ ہم سے نہیں یا اس نے نافرمانی کی۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الرمی والحث علیہ الخ) ٣۔ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ اسلم کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے وہ تیر اندازی کر رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اے بنی اسماعیل! تیر اندازی کرو۔ بے شک تمہارے باپ بڑے تیر انداز تھے اور میں بنی فلاں کے ساتھ ہوں۔‘‘ اب دوسرے فریق نے اپنے ہاتھ روک لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ تم تیر اندازی کیوں نہیں کرتے؟‘‘ انہوں نے کہا : ’’ہم کیسے تیر پھینکیں جبکہ آپ ان کے ساتھ ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تیر اندازی کرو میں سب کے ساتھ ہوں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب التحریص علی الرمی) ٤۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جو گھوڑے گھڑ دوڑ کے لیے تیار کئے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دوڑ حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک اور جو تیار نہیں کئے گئے تھے۔ ان کی دوڑ مسجد بنی زریق تک مقرر فرمائی اور میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے گھوڑے دوڑائے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ، باب ھل یقال مسجد بنی فلاں ) ٥۔ سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک (عید کے) دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حجرے کے دروازے پر دیکھا۔ اور حبشی مسجد میں اپنے ہتھیاروں سے کھیل رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر سے مجھے ڈھانپے ہوئے تھے اور میں بھی ان کا کھیل دیکھ رہی تھی۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب اصحاب الحراب فی المسجد) مگر آج تیر و تلوار کا زمانہ نہیں۔ بلکہ کلاشن کو فوں اور میزائلوں اور بموں کا زمانہ ہے۔ لہٰذا آج مسلمانوں کو ان جدید آلات سے پوری طرح آگاہ اور ان کے استعمال کرنے کی تربیت ہونی چاہیے۔ آج مسلمان اس معاملہ میں جتنی غفلت برت رہے ہیں اسی نسبت سے دوسری قوموں کے محتاج اور ان کے سامنے ذلیل ہو رہے ہیں۔ جہاد اور امریکی پالیسی :۔ آج مسلمانوں کی ایمانی حرارت سرد پڑچکی ہے۔ ان کا اللہ پر توکل اٹھ گیا ہے۔ وہ زبان سے تو ہر روز اپنی نمازوں میں سینکڑوں مرتبہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ مگر حقیقتاً وہ امریکہ کو سب سے بڑا سمجھتے ہیں اور امریکہ کی ناراضگی کا خوف انہیں اللہ کے خوف سے بڑھ کر ہے۔ لہٰذا وہ امریکہ سے دوستی بڑھانے میں ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کی صراحت کے مطابق امریکہ کبھی مسلمانوں کا دوست نہیں ہو سکتا۔ وہ اس دوستی کی آڑ میں بھی مکر و فریب سے ان مسلمانوں کا ستیا ناس ہی کرے گا۔ مسلمان ممالک کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ مادی وسائل عطا فرمائے ہیں۔ مگر ان کی سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ وہ متحد نہیں ہوتے اور سب کے سب ہی امریکہ کے دست نگر اور اس کے وفادار بنے ہوئے ہیں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے اللہ یعنی کتاب و سنت کی طرف رجوع نہیں کرتے بلکہ امریکہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اور امریکہ صرف ان ممالک سے خوش ہوتا ہے جو اپنے ملک سے جہاد کی روح کا جنازہ نکال دیں۔ جو ملک ایٹم بم بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اس منصوبے کو بالکل ملیا میٹ کردیں۔ مجاہدین کے لیے اس نے ایک نئی اصطلاح ''دہشت گرد'' تجویز فرمائی ہے اور مسلمان ملک اس بات سے ہر وقت خائف رہتے ہیں کہ کہیں امریکہ بہادر ان کو دہشت گرد قرار نہ دے دے۔ گویا امریکہ بہادر مسلمان ممالک سے جہاد کی روح کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے اور جنگی قوت کو بھی جس کے لیے اس آیت میں مسلمانوں کو تاکیدی حکم دیا جا رہا ہے، اور اگر مسلمان ممالک کا یہی وطیرہ رہا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ابھی ان کی بدبختی کے دن ختم نہیں ہوئے۔