سورة الانفال - آیت 58

وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر ایک گروہ (ابھی میدان جنگ میں تو دشمنوں کے ساتھ نکلا ہے لیکن اس) سے تمہیں دغا کا اندیشہ ہے تو چاہیے ان کا عہد انہی پر الٹا دو۔ (یعنی عہد فسخ کردو) اس طرح کہ دونوں جانب یکساں حالت میں ہوجائیں (یعنی ایسا نہ کیا جائے کہ اچانک شکست عہد کی انہیں خبر دی جائے بلکہ پہلے سے جتا دینا چاہیے، تاکہ دونوں فریقوں کو یکساں طور پر تیاری کی مہلت مل جائے) یاد رکھو اللہ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦١] معاہدہ قوم کے ساتھ اسلام کی خارجہ پالیسی، مکر و فریب کی شدید مذمت :۔ اس آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ کوئی بھی قوم جس سے تمہارا معاہدہ امن ہوچکا ہو، خواہ وہ تمہاری ریاست کے اندر ہو باہر ہو اور اس قوم سے تمہیں عہد شکنی یا دغا بازی کا خطرہ پیدا ہوجائے تو تم اس کے خلاف کوئی خفیہ کارروائی یا سازش نہیں کرسکتے۔ ایسی صورت میں تمہیں علی الاعلان اس قوم پر واضح کردینا چاہیے کہ اب ہمارا تمہارا معاہدہ ختم ہے تاکہ وہ کسی طرح کے دھوکہ میں نہ رہیں اور تم پر عہد شکنی کا الزام نہ آئے۔ اس کی مثال یہ واقعہ ہے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور روم میں میعادی معاہدہ تھا، دشمن کی حرکات و سکنات دیکھ کر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روم کی سرحد پر فوجیں جمع کرنا شروع کردیں اور اس انتظار میں رہے کہ معاہدہ کی مدت ختم ہوتے ہی روم پر حملہ کر دینگے۔ یہ صورت حال دیکھ کر سیدنا عنبسہ رضی اللہ عنہ آپ کے پاس پہنچے اور انہیں خبردار کیا کہ آپ کتاب و سنت کے احکام کے مطابق ایسا نہیں کرسکتے۔ الا یہ کہ آپ پہلے دشمن کو اپنے ارادہ سے مطلع کردیں چنانچہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فوجیں پیچھے ہٹا لیں۔ دشمن کی بدعہدی کو اعلان جنگ سمجھا جائے :۔ البتہ اگر معاہدہ کی خلاف ورزی فریق ثانی کی طرف سے تو پھر ایسے اعلان کی ضرورت نہیں۔ فریق ثانی کی بد عہدی کو ہی اعلان جنگ سمجھا جائے گا۔ اس کی مثال یہ واقعہ ہے کہ صلح حدیبیہ کی رو سے مسلمانوں اور کفار مکہ میں میعادی معاہدہ امن ہوا۔ بنو بکر مشرکین مکہ کے حلیف تھے اور بنو خزاعہ مسلمانوں کے، قریش مکہ نے بنو بکر کی حمایت کرتے ہوئے اعلانیہ بنو خزاعہ کی خوب پٹائی کی بنوخزاعہ کے چند آدمی فریادی بن کر مدینہ پہنچے اور اس عہد شکنی کا اعتراف قریش کو بھی تھا۔ کیونکہ اس کے بعد ابو سفیان تجدید عہد کے لیے مدینہ پہنچا۔ لیکن اس کی اس درخواست کو آپ نے قبول نہیں کیا اور بالآخر قریش کی یہی عہد شکنی اور غداری مکہ پر چڑھائی اور اس کی فتح کا سبب بنی۔