وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا ۗ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ
اور (پھر دیکھو) جب تم دونوں فریق ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے اور اللہ نے ایسا کیا تھا کہ دشمن تمہاری نظروں میں تھوڑے دکھائی دیئے، (کیونکہ تمہارے دلوں میں ایمان و استقامت کی روح پیدا ہوگئی تھی) اور ان کی نظروں میں تم تھوڑے دکھائی دئے (کیونکہ بظاہر تعداد میں وہی زیادہ تھے) اور یہ اس لیے کیا تھا تاکہ جو بات ہونے و الی تھی اسے کر دکھائے اور سارے کاموں کا دارومدار اللہ ہی کی ذات پر ہے۔
[٤٩] آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خالی مربع کی صورت میں صف بندی :۔ یعنی تم مسلمان کافروں کی تعداد اصل تعداد سے تھوڑی سمجھ رہے تھے اور دشمن یہ سمجھتا تھا کہ مسلمان ہماری نسبت بہت تھوڑے ہیں۔ اس طرح فریقین کے حوصلے بڑھ گئے اور لڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ اس طرح جو کام مشیت الٰہی میں ہونا مقدر تھا۔ اس کے اسباب پیدا ہوتے گئے اور وہ بالآخر ہو کے رہا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب دونوں لشکر ابھی صف آرا نہ ہوئے تھے اور جب صف آرا ہوگئے تو اس وقت کافروں کو مسلمانوں کی تعداد ان کی اصل تعداد سے دگنی نظر آنے لگی تھی۔ جیسا سورۃ آل عمران میں مذکور ہے۔ ﴿یَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَیْہِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ ﴾اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک نہایت ماہرانہ جنگی تدبیر تھی کہ آپ نے صحابہ کی صف آرائی خالی مربع (Hollow Square) کی شکل میں کی تھی جس کی وجہ سے کافروں کو مسلمانوں کی تعداد فی الواقع دو گنا نظر آنے لگی تھی اور اس طرح ان کے حوصلے پست ہوجانا لازمی امر تھا۔ اور بعض علماء کا قول ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب غزوہ بدر میں فرشتوں کا نزول ہوا تھا۔ میرے خیال میں تو یہ توجیہ درست نہیں کیونکہ فرشتے تو اکثر مسلمانوں کو بھی نظر نہیں آتے تھے۔ کافروں کو کیسے نظر آ سکتے تھے؟