إِذْ يُرِيكَهُمُ اللَّهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيلًا ۖ وَلَوْ أَرَاكَهُمْ كَثِيرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ ۗ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
(اور اے پیغمبر) یہ وہ دن تھا کہ اللہ نے تجھے خواب میں ان کی تعداد تھوڑی کر کے دکھائی (یعنی یہ دکھلایا کہ اگرچہ بظاہر مسلمانوں سے زیادہ ہوں گے لیکن عزم و ثبات میں تھوڑے ثابت ہوں گے) اور اگر انہیں بہت کر کے دکھاتا تو (مسلمانو) تم ضرور ہمت ہار دیتے اور اس معاملہ میں جھگڑنے لگتے، اللہ نے تمہیں اس صورت حال سے بچا لیا، یقین کرو جو کچھ انسان کے سینوں میں چھپا ہوتا ہے وہ اس کے علم سے پوشیدہ نہیں۔
[٤٨] کافروں کی تعداد تھوڑی دکھلانے کا مقصد :۔ یعنی یہ بھی اللہ تعالیٰ کی امداد ہی کی ایک صورت تھی کہ عریش میں اللہ کے حضور آہ و زاری و فتح و نصرت کی دعائیں مانگنے کے بعد جب آپ پر نیند کا غلبہ ہوا تو حالت خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کفار کی تعداد ان کی اصل تعداد سے کم دکھلائی گئی اور اس کا فائدہ یہ تھا کہ مسلمان کہیں کفار کی تعداد اور ان کے اسلحہ جنگ سے مرعوب ہو کر ہمت ہی نہ ہار بیٹھیں اور مشورہ کی صورت میں جنگ کرنے یا نہ کرنے کی مصلحتوں پر غور کیا جانے لگے۔ پھر اس میں اختلاف ہونے لگے۔ گویا ایسا خواب دکھلانے کا ایک مقصد تو مسلمانوں کی ہمت بندھانا تھا اور دوسرا اختلافات سے بچانا اور جنگ پر دلیر بنانا تھا۔