إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ
جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ اپنا مال اس لیے خرچ کرتے ہیں کہ لوگوں کو خدا کی راہ سے روکیں تو یہ لوگ آئندہ بھی (اسی طرح) خرچ کریں گے لیکن پھر (وقت آئے گا کہ یہ مال خرچ کرنا) ان کے لیے سراسر پچھتاوا ہوگا اور پھر (بالاخر) مغلوب کیے جائیں گے۔ اور (یاد رکھو) جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی (اور آخر تک اس پر جمے رہے تو) وہ دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے۔
[٣٧] کفار کا مالی اور جانی نقصان پر حسرت کرنا :۔ غزوہ بدر کے دوران کافروں کے ایک ہزار لشکر کی خوراک کا خرچہ روزانہ دس اونٹ تھا۔ اور یہ صرف گوشت کا خرچہ تھا۔ دیگر سب اخراجات اس کے علاوہ تھے۔ پھر ابو سفیان کے تجارتی قافلہ کا سارے کا سارا منافع مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔ غرض اس آیت میں جو غزوہ بدر کے بعد نازل ہوئی کافروں کے حق میں ایک ایسی پیشین گوئی کی گئی جو بعد کے ادوار میں حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ یعنی غزوہ بدر کے بعد بھی کافر خرچ بھی کرتے رہیں گے اور شکست کھا کر پٹتے بھی رہیں گے اور ایک وقت آئے گا جب اسلام دشمنی کی راہ میں ان کا خرچ کیا ہوا مال، خرچ کیا ہوا وقت اور اپنی جسمانی مشقتیں اور جانوں کا نقصان ایک ایک چیز ان کے لیے حسرت کا باعث بن جائے گی۔ پھر اس دنیا میں پٹنے کے علاوہ جو اخروی زندگی میں جہنم کا عذاب ہوگا وہ مستزاد ہے۔