وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ
اور اللہ ایسا کرنے والا نہ تھا کہ تو ان کے درمیان موجود ہو اور پھر انہیں عذاب میں ڈالے حالانکہ وہ معافی مانگ رہے ہوں۔
[٣٤] عذاب سے امان کی صورتیں :۔ ابو جہل کے اس قول کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ ١۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو جہل نے یہ کہا تھا کہ اے اللہ! اگر یہ قرآن تیری طرف سے (نازل شدہ) سچا کلام ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی عذاب ہم پر بھیج دے۔ اس کے جواب میں اگلی آیات وَمَاکَان اللّٰہُ سے لے کر عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ تک نازل ہوئیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے دو امان کی چیزیں اتاری ہیں۔ پھر یہ آیت پڑھی۔ پھر فرمایا کہ جب میں (دنیا سے) چلا گیا تو تمہارے لیے امن کی چیز استغفار کو قیامت تک کے لیے چھوڑ جاؤں گا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) یعنی فوری طور پر تم پر پتھروں کا عذاب نازل نہ کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ تم میں ابھی اللہ کا رسول موجود ہے۔ اس کی موجودگی میں تم پر عذاب نہیں آ سکتا۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ کا رسول اور مومنوں کی جماعت ہر وقت اللہ سے استغفار کرتے رہتے ہیں اور میرا قانون یہ ہے کہ جب تک کسی قوم میں استغفار کرنے والے لوگ موجود رہیں میں اس پر عذاب نازل نہیں کیا کرتا۔