وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
اور (اے پیغمبر) وہ وقت یاد کرو جب (مکہ میں) کافر تیرے خلاف اپنی چھپی تدبیروں میں لگے تھے تاکہ تجھے گرفتار کر رکھیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کردیں اور وہ اپنی مخفی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی مخفی تدبیریں کر رہا تھا، اور اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔
[١ ٣] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قید، جلاوطن یا قتل کرنے کا مشورہ :۔ جب کچھ مسلمان ہجرت کر کے مدینہ چلے آئے تو کفار مکہ کو خطرہ لاحق ہوا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں مکہ سے ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا تو پھر یہ خطرہ ہمارے قابو سے نکل جائے گا۔ لہٰذا جیسے بھی ممکن ہو اس کا علاج فوری طور پر سوچنا چاہیے۔ اس غرض کے لیے انہوں نے دارالندوہ میں میٹنگ کی اور شرکائے مجلس سے تجاویز و آراء طلب کی گئیں۔ کسی نے کہا کہ اسے پابہ زنجیر کر کے قید کردیا جائے۔ شیطان جو خود اس میٹنگ میں انسانی صورت میں حاضر ہوا تھا کہنے لگا : یہ تجویز درست نہیں۔ کیونکہ اس کے پیروکار اس کے اس قدر جانثار ہیں کہ وہ اپنی جانیں خطرہ میں ڈال کر بھی اس کو کسی نہ کسی وقت چھڑا لے جانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ دوسرے نے کہا اسے یہاں سے جلاوطن کردیا جائے۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ کم از کم ہم تو ہر روز کی بک بک سے نجات پا جائیں گے۔ شیطان نے کہا یہ تجویز بھی درست نہیں۔ کیونکہ اس شخص کے کلام اور بیان میں اتنا جادو ہے کہ وہ جہاں جائے گا وہیں اس کے جانثار پیدا ہوجائیں گے۔ پھر وہ انہیں لے کر کسی وقت بھی آپ پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔ بعد میں ابو جہل بولا کہ ہم سب قبائل میں سے ایک ایک نوجوان لے لیں اور یہ سب مل کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یکبارگی حملہ کر کے اسے جان سے ہی ختم کردیں۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ بنو عبد مناف سب قبیلوں سے لڑائی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ لامحالہ خون بہا پر فیصلہ ہوگا جو سب قبائل مل کر حصہ رسدی ادا کردیں گے۔ یہ رائے سن کر شیطان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوگئی اور اس نے اس رائے کو بہت پسند کیا۔ پھر اس کام کے لیے وقت بھی اسی مجلس میں مقرر ہوگیا کہ فلاں رات یہ سب نوجوان مل کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیں اور جب باہر نکلے تو سب یکبارگی اس پر حملہ کر کے اس کا کام تمام کردیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا فوری سبب :۔ ادھر یہ مشورے ہو رہے تھے ادھر اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے نبی کو اس مجلس کی کارروائی سے مطلع کردیا اور ہجرت کی اجازت بھی دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کڑکتی دوپہر میں، جب لوگ عموماً آرام کر رہے ہوتے ہیں، چھپتے چھپاتے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر گئے اور انہیں بتلایا کہ ہجرت کی اجازت مل گئی ہے سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ پہلے ہی اس موقع کے منتظر بیٹھے تھے۔ چنانچہ سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ چھپتے چھپاتے غار ثور تک پہنچ گئے۔ (اس کی تفصیل کسی اور مقام پر آئے گی) اسی رات قاتلوں کے گروہ نے آپ کا محاصرہ کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ وہ بروقت اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گئے۔ جب صبح تک آپ گھر سے نہ نکلے تو پھر وہ خود اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی موجود نہیں اور جب انہیں معلوم ہوا کہ آپ جا چکے ہیں تو ان کی برہمی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ کیونکہ اللہ نے ان کی اس پورے ہاؤس کی منظور کردہ تدبیر کو بری طرح ناکام بنا دیا تھا۔