إِنَّ الَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ ۩
جو اللہ کے حضور (مقرب) ہیں وہ کبھی بڑائی میں آکر اس کی بندگی سے نہیں جھجکتے، وہ اس کی پاکی و ثنا میں زمزمہ سنج رہتے رہیں اور اسی کے آگے سربسجود ہوتے ہیں۔
[٢٠٥] کیونکہ اکڑنا شیطان کا کام ہے اس کے مقابلہ میں فرشتوں کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے، اپنی غلطی کا اعتراف کرتے اور ہر وقت اس کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہتے ہیں جیسا کہ سورۃ بقرہ میں قصہ آدم علیہ السلام و ابلیس میں گزر چکا ہے۔ [٢٠٦] اس آیت کے اختتام پر مسلمانوں کو بھی سجدہ کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اس کا حال بھی ملائکہ مقربین کے حال کے مطابق ہوجائے۔ چنانچہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب ابن آدم سجدہ کی آیت پڑھتا ہے اور سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتے ہوئے علیحدہ ہوجاتا ہے اور کہتا ہے ’’میری بربادی، ابن آدم کو سجدہ کا حکم ملا تو اس نے سجدہ کیا اور اس کے لیے جنت ہے اور مجھے حکم ملا تو میں نے انکار کیا اور میرے لیے دوزخ ہے۔‘‘ (مسلم کتاب الایمان۔ باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلوۃ) سجدہ ہائے تلاوت :۔ قرآن کریم میں ١٤ مقامات ہیں جہاں آیات سجدہ آئی ہیں۔ لیکن سجدہ تلاوت کے وجوب میں اختلاف ہے۔ بعض علماء اسے واجب سمجھتے ہیں اور بعض سنت یا مستحب۔ علاوہ ازیں بعض علماء کے نزدیک سجدہ تلاوت کے لیے نہ وضو ضروری ہے اور نہ قبلہ رخ ہونا اور نہ سلام پھیرنا، نیز یہ سواری پر بھی سر جھکانے سے ادا ہوجاتا ہے تاہم مستحب یہی ہے کہ سجدہ تلاوت بھی انہیں آداب کے ساتھ بجا لایا جائے جیسا کہ نماز میں سجدہ کیا جاتا ہے یعنی باوضو اور قبلہ رخ ہو کر ادا کیا جائے۔