خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ
(بہرحال) نرمی و درگزر سے کام لو، نیکی کا حکم دو، جاہلوں کی طرف متوجہ نہ ہو۔
[١٩٧] داعی حق کے لئے ہدایات۔ ١۔ عفو ودرگزر ، ٢۔ اچھی باتوں کا حکم ، ٣۔ بحث میں پرہیز۔ ٤۔ جوابی کارروائی سے اجتناب :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت مختصر الفاظ میں تین نصیحتیں بیان فرمائی ہیں جو ہر داعی حق کے لیے نہایت اہم ہیں گویا داعی حق کو درپیش مسائل کا حل چند الفاظ میں بیان کر کے دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے اور وہ یہ ہیں۔ ١۔ پچھلی چند آیات میں مشرکین کے معبودان باطل پر اور خود مشرکوں پر سنجیدہ الفاظ میں تنقید کی گئی ہے۔ جس کا یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہر اگلنا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہنا شروع کردیں۔ اندریں صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو درگزر کرنے کی روش اختیار کرنا چاہیے، حوصلہ اور برداشت سے کام لینا چاہیے۔ اپنے رفقاء کی کمزوریوں پر بھی اور اپنے مخالفین کی اشتعال انگیزیوں پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے کیونکہ دعوت حق کے دوران اشتعال طبع سے بسا اوقات اصلی مقصد کو نقصان پہنچ جاتا ہے اور یہ صفت آپ میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا﴿فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ ....﴾ (3: 159) ٢۔ صاف اور سادہ الفاظ میں ایسی بھلائیوں کی طرف دعوت دینا چاہیے جن کو عقل عامہ تسلیم کرنے کو تیار ہو اور اس انداز میں دینا چاہیے جسے لوگ گران بار محسوس نہ کریں اس کی بہترین مثال یہ واقعہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو یہ ہدایات فرمائیں۔ سب سے پہلے لوگوں کو ایک اللہ کی طرف دعوت دو پھر جب وہ اسلام لے آئیں تو انہیں بتلاؤ کہ تمہارے پروردگار نے تم پر دن بھر میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں پھر جب وہ اس پر عمل کرنے لگیں تو پھر بتلانا کہ تمہارے اموال پر اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ فرض کی ہے اور دیکھو زکوٰۃ وصول کرتے وقت ان کے عمدہ عمدہ مال لینے سے اجتناب کرنا اور مظلوم کی بددعا سے بچتے رہنا، کیونکہ اللہ اور مظلوم کی بددعا کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب لاتؤخَذَ کرائم اموال الناس فی الصدقۃ ) اس حدیث میں دعوت کی ترتیب اور خطاب کا جو انداز بیان کیا گیا ہے اس میں داعی حق کے لیے بے شمار اسباق موجود ہیں نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی داعی کو روانہ فرماتے تو انہیں ارشاد فرماتے: (بَشِّرُوْا وَلاَتُنَفِّرُوْا وَیَسِّرُوْا وَلاَ تُعَسِّرُوْا) (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب بعث ابی موسیٰ و معاذ الیٰ یمن) یعنی جہاں تم جاؤ تمہاری آمد لوگوں کے لیے خوشی کا باعث بنے نفرت کا باعث نہ بنے اور تم لوگوں کے لیے سہولت کا موجب بنو، تنگی اور سختی کا موجب نہ بنو۔ ٣۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ اعتراض برائے اعتراض اور بحث برائے بحث کرنے والوں سے کنارہ کش رہنے کی کوشش کرو اگر تم ان کی ہی باتوں میں الجھ گئے تو دعوت حق کے فروغ کا کام وہیں رک جائے گا لہٰذا ایسے لوگوں کے اعتراضات اور طعن و تشنیع کا جواب دینے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان سے بے نیاز ہو کر اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے۔