يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً ۗ يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
(اے پیغمبر) لوگ تم سے (قیامت کے) آنے والے وقت کی نسبت پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کب قرار پائے گا؟ تم کہہ دو اس کا علم تو میرے پروردگار کو ہے، وہی ہے جو اس بات کو اس کے وقت پر نمایاں کرنے و الا ہے۔ وہ بڑا بھاری حادثہ ہے جو آسمانوں اور زمین میں واقع ہوگا، وہ تم پر نہیں آئے گا مگر اچانک۔ (اے پیغمبر) یہ لوگ تم سے اس طرح پوچھ رہے ہیں گویا تم اس کی کاوش میں لگے ہوئے ہو، تم کہو حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ صرف خدا ہی یہ ابت جانتا ہے، لیکن اکثر آدمی ایسے ہیں جو اس حقیقت سے انجان ہیں۔
[١٨٦] قیامت اچانک آئے گی :۔ قیامت کے اس بڑے حادثہ کی بہت سی علامات قرآن میں مذکور ہیں مثلاً زمین میں شدید زلزلے اور متواتر جھٹکے آئیں گے اور انسان حیرت سے یہ پوچھے گا کہ آج اس زمین کو کیا ہوگیا ہے ستارے بے نور ہوجائیں گے، سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح ادھر ادھر اڑنے لگیں گے اور ایسی ہی بہت سی باتیں یکدم ظاہر ہونے لگیں گی۔ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت (یوں اچانک) واقع ہوگی کہ دو آدمیوں نے اپنے درمیان کپڑا پھیلا رکھا ہوگا اور وہ اس کی خرید و فروخت نہ کرسکیں گے نہ اسے لپیٹ سکیں گے اور ایک آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ دھو کر لوٹ رہا ہوگا مگر وہ اسے پی نہ سکے گا اور ایک آدمی اپنا حوض درست کر رہا ہوگا مگر وہ اس میں سے اپنے جانوروں کو پانی نہ پلا سکے گا اور ایک آدمی اپنا نوالہ منہ کی طرف اٹھائے ہوگا مگر وہ اسے کھا نہ سکے گا۔ (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب طلوع الشمس من مغربہا) [١٨٧] قیامت کا وقت نہ بتلانے کا فائدہ :۔ لوگ آپ سے قیامت کا سوال اس طرح کرتے ہیں جیسے آپ اسی مسئلہ کی تحقیق و تفتیش اور کھوج میں لگے ہوئے ہیں اور تلاش کے بعد اس کے علم تک رسائی حاصل کرچکے ہیں۔ حالانکہ قیامت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور انبیاء علیہ السلام کسی ایسی بات کے پیچھے نہیں پڑا کرتے جس کا بتلانا اللہ تعالیٰ نے کسی خاص مصلحت کی بنا پر روک دیا ہو اور ظاہر ہے کہ اگر قیامت کا علم متعین تاریخ اور سن کے ساتھ دے دیا جاتا یا کسی کو اس کے موت کے وقت سے آگاہ کردیا جاتا تو اس طرح یہ دنیا انسان کے لیے دارالامتحان نہ رہ سکتی تھی لہٰذا ان باتوں کا کسی نبی تک کو نہ بتلانا مشیت الٰہی کے عین مطابق ہے اور لوگوں کو ایسے سوال کے پیچھے ہرگز نہ پڑنا چاہیے۔ بلکہ اس کے لیے کچھ تیاری کرنا چاہیے۔