وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ
اور (اے پیغمبر) ان لوگوں کو اس آدمی کا حال (کلام الہی میں) پڑھ کر سناؤ جسے ہم نے اپنی نشانیاں دی تھی (یعنی دلائل حق کی سمجھ عطا کی تھی) لیکن پھر ایسا ہوا کہ اس نے (دانش و فہم کا) وہ جامہ اتار دیا۔ پس شیطان اس کے پیچھے لگا، نتیجہ یہ نکلا کہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔
[١٧٧] دنیا اور خواہشات نفس کے پیچھے پڑنے والے لوگوں کی مثال :۔ اس شخص کا نام نہ قرآن میں مذکور ہے اور نہ احادیث میں اور جو مفسرین کے اقوال ہیں وہ بھی مختلف ہیں کیونکہ اللہ اور اس کے رسول کا طریق بیان ایسا ہے کہ عموماً کسی برے شخص کا نام لے کر اسے بدنام نہیں کیا جاتا بلکہ صرف اس کی خصلت کو بیان کردیا جاتا ہے تاکہ دوسرے لوگ اس سے بچ جائیں اور یہ بات انتہائی اخلاقی بلندی کی دلیل ہے کہ کسی کو بدنام بھی نہ کیا جائے اور اصل مقصد بھی حاصل ہوجائے اور اس کی مثال ہر اس شخص پر صادق آ سکتی ہے جو ایسی صفات رکھتا ہو۔ یہ شخص آیات الٰہی کا عالم تھا باعمل اور مستجاب الدعوات تھا اور لوگوں میں اس کے زہد و اتقاء کی شہرت بھی تھی چند لوگوں نے اس کے پاس آ کر ایک ایسی دعا کی درخواست کی جو شرعاً ناجائز تھی پہلے تو اس نے ایسی ناجائز دعا کرنے سے انکار کردیا لیکن جب ان لوگوں نے اسے بہت سے مال و دولت کا لالچ دیا تو تھوڑی سی پس و پیش کے بعد وہ اس ناجائز کام پر آمادہ ہوگیا اس طرح اسے دنیوی فائدہ تو حاصل ہوگیا لیکن جس مقام بلند پر وہ جا رہا تھا اور آگے جانے کا اردہ رکھتا تھا اس سے گرگیا ۔ ایک دفعہ جب اس پر شیطان کا داؤ چل گیا تو آگے شیطان کا کام نسبتاً آسان تھا۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ محض دنیوی مفادات کی خاطر اللہ کا پورا نافرمان بن گیا اور اپنے ارفع مقام سے گرتا گرتا زمین کی انتہائی پستی تک پہنچ گیا اس شخص یا اس جیسے شخص کی مثال اللہ تعالیٰ نے اس کتے سے دی ہے جس کی حرص اور لالچ کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس کی طرف پتھر پھینکے تو بھی یہی سمجھتا ہے کہ شاید اس نے کوئی ہڈی یا روٹی کا ٹکڑا پھینکا ہوگا۔ پھر وہ اسے نوچتا اور ایک بار ضرور منہ میں لیتا ہے اس کی زبان ہر وقت باہر نکلی اور رال ٹپکتی رہتی ہے اور ہر چیز کو اس لیے سونگھنے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید کہیں سے کھانے کی بو پا سکے اس کی حرص و آز کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر اسے کھانے کے لیے کہیں سے مردار پڑا مل جائے اور وہ اس کی ضرورت سے بہت زیادہ ہو تو بھی اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا کتا اس کے ساتھ اس مردار کے کھانے میں شریک نہ ہو اور یہ مثال ان دنیا کے کتوں پر راس آتی ہے جو اپنی خواہش اور دنیوی مفادات کی خاطر اپنی اچھی سے اچھی قدروں کو قربان کردینے پر تیار ہوجاتے ہیں۔