وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۗ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ ۖ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور (اے پیغمبر) جب ایسا ہوا تھا کہ تیرے پروردگار نے اس بات کا اعلان کردیا تھا (اگر بنی اسرائیل شرارت و بدعملی سے باز نہ آئے تو) وہ قیامت کے دن کے تک ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کردے گا جو انہیں ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا کریں گے، حقیقت یہ ہے کہ تیرا پروردگار (بدعملی کی) سزا دینے میں دیر کرنے والا نہیں اور ساتھ ہی بخشنے والا رحمت والا بھی ہے۔
[١٦٩] یہود کی ذلت و مسکنت کی تاریخی داستان :۔ تاذن کا عربی میں وہی مفہوم ہے جو ہمارے ہاں نوٹس دینے کا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے یہود کو خبردار کردیا تھا کہ اگر تم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو تم پر تا قیامت ایسے حکمران مسلط کر دے گا جو انہیں طرح طرح کے دکھ پہنچاتے رہیں گے۔ ان دکھوں سے مراد ان کی محکومانہ زندگی ہے چنانچہ یہود کبھی یونانی اور کلدانی بادشاہوں کے محکوم بنے رہے کبھی بخت نصر کے شدائد کا نشانہ بنے جس نے بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ان یہود کی کثیر تعداد کو غلام بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا۔ پھر یہ لوگ دور نبوی سے پہلے مجوسیوں کے باج گزار رہے۔ پھر اللہ نے مسلمان حکمرانوں کو ان پر مسلط فرما دیا۔ غرض مالدار قوم ہونے کے باوجود انہیں کہیں بھی عزت کی زندگی نصیب نہ ہوسکی اور ہمیشہ محکوم بن کر ذلت کی زندگی گزارتے رہے اور اس بیسویں صدی کے اوائل میں ہٹلر کے ہاتھوں بری طرح پٹے اور اس نے لاکھوں یہودیوں کو بےدریغ قتل کردیا۔ اس بیسویں صدی ہی کے وسط میں چند حکومتوں کے سہارے تھوڑے سے علاقہ پر اپنی حکومت بنائی ہے۔ مگر امن پھر بھی نصیب نہیں اور قیامت کے قریب جب دجال کا ظہور ہوگا تو یہ اس کے مددگار ہوں گے پھر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے مسلمان رفقاء کے ہاتھوں سب کے سب تہہ تیغ کردیئے جائیں گے۔ جیسا کہ بے شمار احادیث صحیحہ سے واضح ہوتا ہے۔