وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ
اور (اے پیغمبر) بنی اسرائیل سے اس شہر کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھا اور جہاں سبت کے دن لوگ خدا کی ٹھہرائی ہوئی حد سے باہر ہوجاتے تھے، سب کے دن ان کی (مطلوبہ) مچھلیاں پانی پر تیرتی ہوئی ان کے پاس آجاتیں مگر جس دن سبت نہ مناتے نہ آتیں، اس طرح ہم انہیں آزمائش میں ڈالتے تھے، بہ سبب اس نافرمانی کے جو وہ کیا کرتے تھے۔
[١٦٧] یعنی ذرا یہود مدینہ سے سبت والوں کی بات تو پوچھئے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ قصہ ان میں بڑا مشہور و معروف تھا اور بروایت تواتر چلا آ رہا تھا۔ جس سے یہود انکار نہیں کرسکتے تھے یہ کوئی ایسا حکم نہیں تھا جس کا بجا لانا آپ کے لیے ضروری ہو یا فی الواقع آپ نے یہود سے پوچھا ہو اس واقعہ کی تفصیل بھی پہلے سورۃ بقرہ کی آیت ٦٥ کے حواشی میں گزر چکی ہے اور اس قصہ کو یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ جتلانا ہے کہ یہ یہود نسلاً بعد نسل سرکش اور نافرمان چلے آ رہے ہیں۔ سرکشی اور نافرمانی ان کی رگ رگ میں رچی ہوئی ہے۔ لہٰذا ان کی اسلام دشمن سرگرمیاں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے کچھ تعجب نہ ہونا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ ان کی شکلیں فی الواقع بندروں جیسی بن گئی تھیں یا نہیں تو اگرچہ بعض لوگوں نے اس کا انکار کیا تھا تاہم راجح قول یہی ہے کہ وہ فی الواقع بندر بنا دیئے گئے جو ایک دوسرے کو پہچانتے، چیخیں مارتے اور روتے تھے پھر اسی حالت میں تین دن کے بعد مر گئے اور بعض کہتے ہیں کہ ان کے چہروں میں اس قسم کا ورم پیدا ہوا جس سے ان کے چہرے بالکل بندروں جیسے معلوم ہوتے تھے۔ آخر اسی حالت میں تین روز بعد مر گئے اور یہ واقعہ سیدنا داؤد علیہ السلام کے زمانہ میں پیش آیا تھا۔