وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي ۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ
اور جب موسیٰ آیا تاکہ ہمارے مقررہ وقت میں حاضری دے، اور اس کے پروردگار نے اس سے کلام کیا تو (جوش طلب میں بے اختیار ہوکر) پکار اٹھا، پروردگار ! مجھے اپنا جمال دکھا کہ تیری طرف نگاہ کرسکوں، حکم ہوا تو مجھے کبھی نہ دیکھ سکے گا۔ مگر ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر یہ (تجلی حق کی تاب لے آیا اور) اپنی جگہ ٹکا رہا تو (سمجھ لیجیو تجھے بھی میرے نظارہ کی تاب ہے اور تو) مجھے دیکھ سکے گا، پھر جب اس کے پروردگار (کی قدرت) نے نمود کی تو پہاڑ ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ غش کھا کے گر پڑا۔ جب موسیٰ ہوش میں آیا تو بولا خدایا ! تیرے لیے ہر طرح کی تقدیس ہو ! میں (اپنی جسارت سے) تیرے حضور توبہ کرتا ہوں، میں ان میں پہلا شخص ہوں گا جو (اس حقیقت پر) یقین رکھتے ہیں۔
[١٣٨] سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا مطالبہ دیدار اور آپ کا بے ہوش کر گرپڑنا :۔ چالیس دن کی اس شبانہ روز عبادت و ریاضت کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو کسی مخصوص و ممتاز رنگ میں شرف کلام بخشا۔ آپ کو بلا واسطہ اللہ کی بات سننے سے عجیب لذت حاصل ہوئی اور اسی لذت کے اثر سے دل میں متکلم کے دیدار کی آرزو پیدا ہوئی تو بے ساختہ دیدار کے لیے درخواست کردی کہ الہٰی! درمیان سے یہ حجاب اور موانع دور کر دے تاکہ میں ایک نظر تجھے دیکھ سکوں جواب ملا کہ تم اس فنا ہونے والے وجود اور فانی آنکھوں سے میرے دیدار کے کبھی متحمل نہ ہو سکو گے۔ اگر اتنی ہی آرزو ہے تو اس پہاڑ کی طرف دیکھو جس پر میں تھوڑا سا اپنی تجلیات کا پرتو ڈالوں گا اگر پہاڑ اس پرتو کو برداشت کرسکا اور وہ اپنی جگہ قائم رہا تو شاید تم بھی برداشت کرسکو اور یہ بات اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم تھی کہ یہ پرتو نہ پہاڑ برداشت کرسکے گا اور نہ موسیٰ علیہ السلام ۔ جیسا کہ پہلے ہی کہہ دیا تھا اور یہ بات صرف اس لیے کہی تھی کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دل شکنی نہ ہو۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر اپنا پرتو ڈالا تو وہ ریزہ ریزہ ہو کر زمین بوس ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام جو پاس کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے اس دہشت سے بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ جب ہوش آیا تو پہلی بات یہ کی کہ میں نے جو یہ ناجائز قسم کا مطالبہ کردیا تھا اس سے توبہ کرتا ہوں، تیری عظمت و جلال کا اقرار کرتا ہوں اور اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ اس فانی دنیا میں اور ان فانی آنکھوں سے تیرا دیدار ناممکن ہے۔ لیکن جب یہ فانی دنیا ہی تبدیل کردی جائے گی اور انسانی قویٰ اور بالخصوص اس کی آنکھوں میں ایسی تبدیلی لائی جائے گی کہ وہ دیدار الٰہی کی متحمل ہو سکیں تو ایک مرتبہ لوگوں پر ایسا ہی غشی کا عالم طاری ہوگا جیسے موسیٰ علیہ السلام پر اس دنیا میں طاری ہوا تھا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔