وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَىٰ قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ
اور ہمارے حکم سے ایسا ہوا کہ بنی اسرائیل سمندر پار اتر گئے، وہاں ان کا گزر ایک گروہ پر ہوا کہ اپنے بتوں پر مجاور بنا بیٹھا تھا، بنی اسرائیل نے کہا، اے موسیٰ ! ہمارے لیے بھی ایسا ہی ایک معبود بنا دے جیسا ان لوگوں کے لیے ہے، موسیٰ نے کہا (افسوس تم پر) تم بلاشبہ ایک جاہل گروہ ہو۔
[١٣٤] گؤسالہ پرستی کی استدعا :۔ بنی اسرائیل اگرچہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لا چکے تھے اور اپنے موحد ہونے کا اقرار بھی کرتے تھے تاہم اس کے اندر گؤسالہ پرستی کے جراثیم ہنوز باقی تھے جس میں انہوں نے اپنی عمریں گزار دی تھیں۔ سمندر پار کرتے ہی انہوں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ بچھڑے کا ایک پیتل کا بنا ہوا بت عبادت خانہ میں اپنے سامنے رکھ کر اس کی پوجا پاٹ میں مشغول تھے انہیں دیکھ کر بنی اسرائیل کو اپنی پرانی یاد تازہ ہوگئی اور گؤ سالہ پرستی کے لیے جی للچا آیا حتیٰ کہ موسیٰ علیہ السلام کو یہ بات کہہ بھی دی۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا کہ یہ تم کیسی جہالت کی باتیں کر رہے ہو؟ ابھی تک یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آسکی کہ عبادت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے۔ پیکر محسوس اور تصور شیخ کی علّت اور ذات انواط :۔ بت پرست لوگ عموماً یہ کہا کرتے ہیں کہ ہم ان بتوں کی پوجا نہیں کرتے بلکہ اللہ ہی کی پوجا کرتے ہیں مگر چونکہ انسانی طبیعت کا خاصہ ہے کہ وہ ایک محسوس چیز کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے اس لیے کسی بت کو سامنے رکھنے سے ہم اللہ کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں اور مسلمان کسی کا بت تو سامنے نہیں رکھتے مگر اپنے شیخ کا تصور یا تصویر اس طرح اپنے ذہن میں پختہ کرتے ہیں کہ اس کا تصور یا تصویر آنکھوں کے سامنے رہے اور کہتے ہیں کہ عبادت ہم اللہ ہی کی کرتے ہیں ایسی سب باتیں شرک ہی کا پیش خیمہ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی ہر بات سے منع فرما دیا ہے جس میں شرک کا شائبہ تک بھی پایا جاتا ہو چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی لڑائی میں تشریف لے گئے وہاں مسلمانوں نے ایک بیری کا درخت دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ خواہش ظاہر کی کہ جس طرح کافروں نے ایک درخت مقرر کر رکھا ہے جس پر وہ اپنے کپڑے اور ہتھیار لٹکاتے اور اس کے گرد جمے رہتے ہیں اور اسے ذات انواط کہتے ہیں اسی طرح آپ ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو وہی مثال ہوئی جیسے بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ ہمیں بھی ایک بت بنا دیجئے جس طرح ان لوگوں کے بت ہیں۔ (ترمذی۔ ابو اب الفتن۔ باب لترکبن سنن من کان قبلکم )