وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا ۖ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ
اور جس قوم کو کمزور و حقیر خیال کرتے تھے اسی کو ملک کے تمام پورب (١) کا اور اس کے مغربی حصوں کا کہ ہماری بخشی ہوئی برکت سے مالا مال ہے وارث کردیا۔ اور اسی طرح (اے پیغمبر) تیرے پروردگار کا فرمان پسندیدہ بنی اسرائیل کے حق میں پورا ہوا کہ (ہمت و ثبات کے ساتھ) جمے رہے تھے اور فرعون اور اس کا گروہ (اپنی طاقت و شوکت کے لیے) جو کچھ بناتا رہا تھا اور جو کچھ ( عمارتوں کی) بلندیاں اٹھائی تھیں وہ سب درہم برہم کردیں۔
[١٣٢] یہاں کمزور لوگوں سے مراد یہی بنی اسرائیل ہیں جو فرعونیوں کی غلامی کی چکی میں پس رہے تھے اور وہ اپنے کئی وعدوں کے باوجود انہیں آزاد کرنے پر تیار نہ ہوتے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سارے کے سارے بنی اسرائیل سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ نہیں گئے تھے بلکہ کچھ مصر ہی میں رہ گئے تھے اور فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کی ہلاکت کے بعد یہ اس سر زمین پر بھی قابض ہوگئے تھے جیسا کہ اسی سورت کی آیت نمبر ١٢٩ سے اور بعض دوسری آیات سے بھی اس کی تائید ہوجاتی ہے واللہ اعلم بالصواب۔ پھر بعد میں سیدنا داؤد علیہ السلام اور سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اس علاقے میں مستحکم حکومت قائم کی۔ [١٣٣] برکت والا علاقہ؟:۔ اس سر زمین سے مراد ملک شام ہے اس کی ظاہری برکات تو یہ ہیں کہ یہ علاقہ نہایت سرسبز و شاداب، خوش منظر اور زرخیز ہے اور باطنی برکات یہ ہیں کہ یہ ملک بہت سے انبیاء کا مسکن و مدفن ہے دریائے قلزم کو پار کرنے کے بعد بنی اسرائیل چالیس برس تک تو صحرائے تیہ میں سرگرداں پھرتے رہے جس کی پوری تفصیل سورۃ بقرہ میں گزر چکی ہے اسی میدان میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوئی اس کے بعد بنی اسرائیل نے سیدنا یوشع بن نون علیہ السلام کے ساتھ مل کر عمالقہ سے جہاد کیا اس میں انہیں فتح ہوئی اور اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور بنی اسرائیل اپنے آبائی وطن ملک شام کے وارث بن گئے۔