وَمَا تَنقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا ۚ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ
ہمارا قصور اس کے سوا کچھ نہیں کہ جب ہمارے پروردگار کی نشانیاں ہمارے سامنے آگئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے۔ (ہماری دعا خدا سے یہ ہے کہ) پروردگار ! ہمیں صبر و شکیبائی سے معمور کردے (تاکہ زندگی کی کوئی اذیت ہمیں اس راہ میں ڈگمگا نہ سکے) اور ہمیں دنیا سے اس حالت میں اٹھا کہ تیرے فرمانبردار ہوں۔
[١٢٢] جادوگروں کی ایمانی جرأ ت :۔ فرعون کی یہ تیسری تدبیر بھی بری طرح ناکام ہوگئی وہ چاہتا یہ تھا کہ جادوگروں کو جسمانی عذاب اور قتل کی دھمکی دے کر اس سازش کے الزام کا اعتراف کروا لے لیکن جادوگروں نے اپنے آپ کو ہر سزا کے لیے پیش کر کے یہ ثابت کردیا کہ ان کا یہ ایمان لانا کسی سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ اعتراف حق کا نتیجہ ہے یاد رہے کہ یہ وہی جادوگر ہیں جو مقابلے سے پہلے فرعون سے یہ پوچھ رہے تھے کہ اگر ہم نے اپنے مذہب کو موسیٰ علیہ السلام کے حملے سے بچا لیا تو ہمیں کچھ انعام و اکرام بھی ملے گا ؟ اور اب ایمان لانے کے بعد ان کی کیفیت یہ ہوگئی کہ وہ فرعون کی ہر سزا کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں دوسری طرف وہی فرعون جو انہیں انعام و اکرام کے علاوہ کرسیاں (اعلیٰ مناصب) بھی دینے کا وعدہ کر رہا تھا اس مقابلے کے فوراً بعد ان کا جانی دشمن بن گیا۔ [١٢٣] یعنی جس پروردگار کی نشانیوں پر ایمان لانے سے ہم تیری نگاہ میں مجرم ٹھہرے ہیں ہم اسی سے التجا کرتے ہیں کہ وہ تیری سختی اور ظلم و ستم پر ہمیں صبر کی توفیق بخشے اور راہ مستقیم پر قائم رکھے ایسا نہ ہو کہ ہم گھبرا کر کوئی بات اس کی تسلیم و رضا کے خلاف کر گزریں۔