قَالَ أَلْقُوا ۖ فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ
موسی نے کہا تم ہی پہلے پھینکو، پھر جب جادوگروں نے (جادو کی بنائی ہوئی لاٹھیاں اور رسیاں) پھینکیں تو ایسا کیا کہ لوگوں کی نگاہیں جادو سے مار دیں اور ان میں (اپنے کرتبوں سے) دہشت پھیلا دی اور بہت بڑا جادو بنا لائے۔
[١١٧] اور موسیٰ علیہ السلام نے جو جواب دیا وہ ازراہ تکریم نہیں تھا نہ ہی اس لئے کہ ان کی نگاہ میں جادوگر کوئی قابل تعظیم چیز تھے بلکہ اس لیے کہ حق کی وضاحت ہو ہی اس صورت میں سکتی ہے کہ پہلے باطل اپنا پورا زور دکھا لے پھر اس کے بعد اگر حق غالب آئے تو سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ مثلاً اگر موسیٰ علیہ السلام پہلے اپنا عصا ڈال دیتے تو ممکن تھا کہ مقابلے کی نوبت ہی نہ آتی اور جادوگر پہلے ہی ہتھیار ڈال دیتے تو لوگوں میں کئی طرح کے شکوک پیدا ہو سکتے تھے یا دوبارہ مقابلے کے لیے جادوگر وقت طلب کرسکتے تھے۔ [١١٨] جادوگروں کا بہت بڑا جادو :۔ جادوگروں نے جب میدان میں اپنی لاتعداد لاٹھیاں اور رسیاں لا پھینکیں اور جادو کے ذریعے لوگوں کی نظر بندی کردی تو لوگوں کو سارا میدان متحرک سانپوں سے بھرا ہوا نظر آنے لگا لوگ دہشت زدہ ہوگئے کیونکہ اس شاہی دنگل کے لیے جادوگروں نے اتنی تیاریاں کی تھیں کہ اتنے بڑے جادو کی سابقہ ادوار میں نظیر ملنا مشکل تھی۔