يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ
کہ (مملکت کے) تمام شہروں سے جادوگر اکٹھا کر کے تیرے حضور لے آئیں۔
[١١٤] فرعون اور درباریوں کی مرعوبیت :۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی باتیں سن کر فرعون اور فرعونیوں کو واقعی یہ خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ یہ شخص اس ملک میں انقلاب لا سکتا ہے اور اس کی وجوہ کئی تھیں ایک یہ کہ موسیٰ علیہ السلام نے انہی میں رہ کر تربیت پائی تھی فنون جنگ سیکھے تھے بلکہ ایک دفعہ حبش پر چڑھائی کے دوران انہیں سپہ سالار بنا کر بھی بھیجا گیا اور وہ کامیاب و کامران واپس آئے تھے۔ وہ جرأت مند، دلیر اور مضبوط قد و قامت کے مالک تھے اور ان کی صداقت کے سب لوگ معترف تھے۔ دوسرے یہ کہ موسیٰ علیہ السلام نے یہ وضاحت کردی تھی کہ میں اس اللہ تعالیٰ کا فرستادہ ہوں جسے تم بھی رب اکبر تسلیم کرتے ہو۔ نیز یہ کہ میں بعینہٖ وہی بات کر رہا ہوں جو میرے پروردگار نے مجھے کہی ہے۔ تیسرے یہ کہ آپ کے معجزات نے فرعون اور فرعونیوں سب کو مرعوب اور دہشت زدہ بنا دیا تھا۔ اور ان لوگوں نے جو موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر کہہ دیا تو یہ محض ایک طفل تسلی، دل کے بہلاوے، وقت کو ٹالنے اور عوام الناس کو اندھیرے میں رکھنے کی غرض سے کہی گئی کہ شاید کچھ مدت گزرنے پر حالات کوئی دوسرا رخ اختیار کر جائیں۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ کوئی جادوگر نہ کبھی کوئی سیاسی انقلاب لایا ہے نہ لا سکتا ہے۔