وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ
اور اپنا ہاتھ (جیب سے باہر) نکالا تو اچانک ایسا ہوا کہ دیکھنے والوں کے لیے سفید چمکیلا تھا۔
[١١٢] عصائے موسیٰ اور ید بیضاء :۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے مطالبہ پر اپنا عصا زمین پر پھینکا تو وہ تھوڑی دیر میں بہت بڑا اژدہا بن گیا اور اپنا منہ کھول کر فرعون ہی کی طرف لپکا۔ فرعون نے سخت دہشت زدگی کی حالت میں موسیٰ علیہ السلام سے التجا کی کہ اس سانپ کو سنبھال لے۔ آپ علیہ السلام نے اسے ہاتھ لگایا تو وہ پھر عصا بن گیا پھر آپ نے اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دبایا اور اسے نکالا تو وہ سفید اور چمکدار تھا۔ حالانکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا اپنا رنگ گندمی تھا یہ ہاتھ اتنا تابدار ہو کر بغل سے نکلتا تھا جس سے آنکھیں چندھیانے لگتی تھیں۔ یہاں بعض عقل پرست فرقوں کی طرف سے ایک اور بحث بھی چل نکلی ہے کہ آیا اس طبعی دنیا میں ایسے خرق عادت واقعات کا ظہور ممکن بھی ہے یا نہیں؟۔ دوسرے الفاظ میں اس بحث کا عنوان یہ ہے کہ اس کائنات میں انتظام کے لیے اللہ نے جو طبعی قوانین بنائے ہیں کیا وہ خود ان قوانین میں کسی وقت اپنی مرضی کے مطابق تصرف یا رد و بدل بھی کرسکتا ہے یا نہیں؟ عقل پرست ایسے خرق عادت واقعات کا انکار کردیتے ہیں اور قرآن میں جہاں کہیں ایسے واقعات مذکور ہیں ان کی دوراز کار تاویلات کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ایسی دوراز کار کہ قرآن کی عبارت جن کی متحمل ہی نہیں ہوسکتی ان حواشی میں اس طویل بحث کی گنجائش نہیں (تفصیل کے لیے دیکھیے میری تصنیف ''عقل پرستی اور انکار معجزات'' نیز آئینہ پرویزیت حصہ اول و دوم)