قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۚ قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ
اس پر (١) قوم کے سرداروں نے جنہیں (اپنی دنیوی طاقتوں کا) گھمنڈ تھا کہا اے شعیب ! (دو باتوں میں سے ایک بات ہو کر رہے گی) یا تو تجھے اور ان سب کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں ہم اپنے شہر سے ضرور نکال باہر کریں گے یا تمہیں مجبور کردیں گے کہ ہمارے دین میں لوٹ آؤ۔ شعیب نے کہا، اگر ہمارا دل تمہارے دین پر مطمئن نہ ہو تو کیا جبرا مان لیں؟
[٩٣] سرداران قوم کی دھمکی :۔ جب متکبر سرداروں کے انکار اور ہٹ دھرمی کے باوجود کچھ لوگ سیدنا شعیب علیہ السلام پر ایمان لے آئے اور ایسے مومنوں کی ایک کمزور سی جمعیت سامنے آ گئی تو سرداروں کی آنکھوں میں یہ لوگ کھٹکنے لگے لہٰذا انہیں دھمکی دینے پر اتر آئے گویا جس میدان میں عقلی طور پر مات کھاچکے تھے اب ڈنڈے کے زور سے اس مسئلے کو حل کرنے کے درپے ہوئے اور یہی جہالت کی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے انہوں نے کہا شعیب! بس دو ہی باتیں ہیں جن میں سے ایک تمہیں بہرحال قبول کرنا پڑے گی یا تو اس نئے دین کی تبلیغ سے باز آؤ اور وہی پرانا دین اختیار کرلو یا پھر ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو اس آبادی سے نکال دیں گے تمہارے توحید پر قائم رہتے ہوئے یہاں رہنے کی کوئی صورت نہیں۔