سورة الاعراف - آیت 84

وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًا ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ہم نے ان پر (پتھروں کا) مینہ برسا دیا تھا، سو دیکھو مجرموں کا انجام کیسا ہوا؟

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٩] قوم لوط کا انجام :۔ اس مقام پر صرف اتنا ہی مذکور ہے کہ اس قوم پر ہم نے بدفعلی اور پھر سرکشی کی پاداش میں بری طرح کی بارش برسائی۔ لیکن قرآن کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کی سب بستیوں کو اٹھا کر بلندی سے زمین پر دے مارا گیا۔ سیدنا جبرئیل علیہ السلام آئے انہوں نے زمین کے اتنے حصہ کو زمین سے علیحدہ کر کے اپنے پروں پر اٹھایا پھر اوپر سے زمین پر پٹخ دیا پھر اوپر سے اللہ تعالیٰ نے پتھروں کی بارش برسائی اس طرح اس بدکار قوم کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا۔ اب ایسا عذاب کیوں نہیں آتا ؟:۔ یہاں ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ ایسے جرائم تو آج کل بھی ہو رہے ہیں پھر ان پر کیوں ایسا عذاب نہیں آتا تو اس کی وجوہ درج ذیل ہیں۔ ١۔ جب اللہ کا نبی کسی قوم کو اس کی بدفعلی یا جرائم سے منع کرے لیکن قوم باز آنے کی بجائے اکڑ جائے اور اللہ کے رسول اور اس کی آیات کی تکذیب کرے اس کا مذاق اڑانے اور انہیں دکھ پہنچانے لگے تو اس کا جرم اصل جرم سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے حالانکہ بنیادی جرم کی حیثیت بنیادی ہی رہتی ہے بخلاف ان لوگوں کے جو محض اس ایک جرم میں مبتلا ہوتے ہیں لہٰذا یہ اتنے شدید مجرم نہیں ہوتے کہ انہیں فوراً ہلاک کردیا جائے اور ان کے لیے معذرت کی گنجائش کو باقی نہ چھوڑا جائے۔ اللہ کا عذاب صرف اس صورت میں آتا ہے جب معاشرے کی اکثریت اس جرم میں مبتلا ہوجاتی ہے کسی جرم کو جرم نہ سمجھنے یا اسے جائز قرار دینے یا کچھ افراد کے اس میں مبتلا ہونے ہی پر عذاب نہیں آجایا کرتا اور جب کسی معاشرے کی اکثریت اس جرم میں مبتلا ہوجائے تو اسے اس کے منطقی نتائج سے دو چار ہونا ہی پڑتا ہے اور انہی منطقی نتائج کا نام شریعت کی اصطلاح میں اللہ کی سنت جاریہ ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوا کرتی جیسے اس قوم کی نسل میں کمی یا انقطاع بھی عذاب کی قسم ہے۔ آج کل تہذیب مغرب کا علمبردار امریکہ ہے جہاں ہم جنسی کا قانون بھی پاس ہوچکا ہے اور وہاں گورے اور کالے کا مسئلہ بھی شدت اختیار کرچکا ہے گورے یعنی حکمران قوم امریکہ کی پرانی آبادی یعنی کالے لوگوں سے بڑی نفرت کرتے ہیں اور انہیں مساوی شہری حقوق بھی نہیں دیتے۔ اب گورے لوگوں کی عورتوں میں یہ رجحان چل نکلا ہے کہ وہ کالے لوگوں کو شادی کے لیے پسند کرتی ہیں جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ گورے لوگ لواطت کے عادی ہوچکے ہیں اور کالے اس قسم کی فحاشی سے بچے ہوئے ہیں۔ گوری عورتوں کے اس رجحان نے حکمران قوم کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ کھڑا کردیا ہے اور یہ بھی اللہ کی طرف سے ایک عذاب ہے۔ ٢۔ عذاب کی طبعی توجیہات :۔ اللہ کا عذاب آج بھی مختلف زلزلوں، سیلابوں، طوفان باد و باراں اور خسف کی صورت میں آتا ہی رہتا ہے لیکن ہمارے ظاہر بین سائنس دان اور دانش وران قوم اس عذاب کی ایسی طبعی یا تاریخی توجیہات تلاش کر کے عوام کے سامنے پیش کردیتے ہیں کہ عوام کا ذہن اس حقیقت کی طرف منتقل ہی نہ ہونے پائے۔ جو قرآن ہمیں سمجھانا چاہتا ہے اور اس کے انداز بیان سے صاف طور پر واضح ہو رہا ہے۔