وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۚ أَفَلَا تَتَّقُونَ
اور (١) (اسی طرح) ہم نے قوم عاد کی طرف اس کے بھائی بندوں میں سے ہود کو بھیجا، اس نے کہا، اے قوم ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، کیا تم (انکار و بدعملی کے نتائج سے) نہیں ڈرتے؟
[٧٠] سیدنا ہود علیہ السلام کا مرکز تبلیغ :۔ طوفان نوح کے بعد بھی ایک مدت سیدنا نوح علیہ السلام زندہ رہے پھر اس طوفان کے تقریباً چھ سو سال بعد سیدنا ہود علیہ السلام کو قوم عاد کی طرف بھیجا گیا یہ سام کی اولاد میں سے تھے جو عاد عرب کی قدیم ترین قوم تھی، جس کے افسانے عرب میں زبان زد عام تھے اس قوم کو عاد اولیٰ بھی کہا جاتا ہے اس کی شان و شوکت بھی ضرب المثل تھی اور دنیا سے اس کا نام و نشان تک مٹ جانا بھی ضرب المثل بن گیا تھا۔ اسی شہرت کی وجہ سے عربی زبان میں ہر قدیم چیز کے لیے عادی کا لفظ بولا جاتا ہے۔ آثار قدیمہ کو عادیات کہتے ہیں اور جس زمین کے مالک باقی نہ رہے ہوں یا مدت سے بنجر پڑی ہو اسے عادی الارض کہا جاتا ہے۔ اس قوم کا اصل مسکن احقاف کا علاقہ تھا جو حجاز، یمن اور یمامہ کے درمیان الربع الخالی کے جنوب مغرب میں واقع ہے یہیں سے پھیل کر ان لوگوں نے یمن کے مغربی سواحل اور عمان اور حضرموت سے عراق تک اپنی طاقت کا سکہ رواں کردیا تھا۔ یہ قوم بڑی قد آور، مضبوط اور سرکش تھی۔ رہنے کے لیے زمین دوز شہروں کے شہر بسا رکھے تھے اور بت پرستی میں بری طرح پھنسے ہوئے تھے۔ سیدنا ہود علیہ السلام نے انہیں بت پرستی سے منع کیا اور سمجھایا کہ یہ بت نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں لہٰذا صرف ایک اللہ کی عبادت کرو جو ہر چیز کا خالق و مالک ہے اور ہر قسم کے اختیارات و تصرفات صرف اسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ لہٰذا انہیں اپنی اس غلط روش سے پرہیز کرنا چاہیے۔