فَكَذَّبُوهُ فَأَنجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا عَمِينَ
بایں ہمہ لوگوں نے نوح کو جھٹلایا، پس ہم نے اسے اور ان سب کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے (سیلاب سے) نجات دی اور جنہوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائی تھیں انہیں غرق کردیا، حقیقت یہ ہے کہ وہ (اپنی سمجھ بوجھ کھو کر) یک قلم اندھے ہوگئے تھے۔
[٦٧] انبیاء کے قصوں میں تکرار و اختصار کی وجہ :۔ نوح علیہ السلام کا قصہ جس اختصار کے ساتھ یہاں بیان کیا گیا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اور ان کی قوم میں جو سوال و جواب ہوئے وہ بس دو چار ملاقاتوں میں ہوگئے ہوں گے۔ حالانکہ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی تھی۔ نوح علیہ السلام کا قصہ قرآن میں متعدد بار مذکور ہوا ہے اور ہر موقع پر کوئی نہ کوئی تفصیل مل جاتی ہے۔ یہ قرآن کا مخصوص انداز بیان ہے کہ جس مقام پر موضوع کی نسبت سے جتنا ذکر درکار تھا اتنا ہی بیان کردیا گیا کیونکہ قرآن کا مقصود محض قصہ گوئی نہیں بلکہ اس وقت جو بات انسانی ہدایت کے لیے اہم ہو صرف اتنی ہی بیان کی جاتی ہے مثلاً یہاں یہ موضوع جاری ہے کہ انبیاء کو ہمیشہ سے جھٹلایا جاتا رہا۔ جھٹلانے والے لوگ قوم کے سردار ہوتے ہیں جو اپنی ہٹ دھرمی پر اڑے رہتے ہیں بالآخر ان پر اللہ کا عذاب آتا ہے جو انہیں تباہ کر کے رکھ دیتا ہے اس لیے یہاں اتنا ہی ذکر کیا گیا اور جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخالفین کے مظالم پر صبر کرنے کی تلقین مقصود تھی وہاں یہ بیان کیا گیا کہ نوح علیہ السلام نے تو ساڑھے نو سو سال تک صبر کیا تھا لہٰذا تمہیں بھی صبر کرنا چاہیے اور جہاں نوح علیہ السلام کے نافرمان بیٹے کے غرق ہونے کا ذکر مقصود تھا نیز یہ کہ وہ کیوں غرق ہوا وہاں طوفان نوح علیہ السلام کی تفصیل بیان کی گئی تمام انبیاء علیہم السلام کے حالات کے متعلق قرآن میں آپ کو اسی انداز کا بیان ملے گا۔ [٦٨] قوم نوح کی غرقابی :۔ ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے نتیجہ میں مٹھی بھر لوگ اور بعض اقوال کے مطابق صرف چالیس آدمی آپ پر ایمان لائے۔ جب نوح علیہ السلام باقی لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو آپ نے ان کے حق میں بددعا کی کہ یا اللہ ان میں سے اب کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑنا کیونکہ جس ہٹ دھرمی پر یہ اتر آئے ہیں، ان کی اولاد بھی اب فاسق و فاجر ہی بنے گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کشتی تیار کرنے کا حکم دیا پھر جب سیلاب آنا شروع ہوا تو آپ نے اس سے ذرا پہلے اپنے پیروکاروں کو اس میں سوار کیا اور جانداروں کا ایک ایک جوڑا بٹھا لیا۔ پھر سیلاب اس وسیع پیمانے پر آیا جس سے یہ ساری کی ساری بدکار قوم ڈوب کر مر گئی۔ (نیز دیکھیے سورۃ ہود کی آیت نمبر ٤٤ کا حاشیہ ) [ ٦٩] اندھے اس لحاظ سے تھے کہ انہوں نے نہ حق و باطل میں تمیز کی نہ اپنے نفع کو سوچا بلکہ ایسے ہٹ دھرم واقع ہوئے تھے کہ اندھے ہو کر اپنی سرکشی اور رسول کی تکذیب اور بغاوت پر ڈٹے رہے مگر بت پرستی سے باز نہ آئے بلکہ ایک دوسرے کو تاکید کرتے تھے کہ دیکھو نوح علیہ السلام کے کہنے پر چل کر کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ نہ دینا۔