لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
یہ واقعہ ہے کہ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف (تبلیغ حق کے لیے) بھیجا تھا۔ اس نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے ہی (ہولناک) دن کا عذاب تمہیں پیش نہ آجائے۔
[٦٣] سیدنا نوح علیہ السلام کی بعثت سے پہلے شرک کا آغاز کیسے ہوا تھا ؟ سیدنا آدم علیہ السلام کی وفات کے بعد مدتوں ان کی اولاد راہ ہدایت پر قائم رہی پھر آہستہ آہستہ ان میں بگاڑ پیدا ہونے لگا اور یہ پہلے بتلایا جا چکا ہے کہ فساد فی الارض کی بنیاد شرک پر ہی اٹھتی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق اس شرک کا آغاز اس طرح ہوا کہ اس قوم میں سے وقتاً فوقتاً پانچ بزرگ اور صالح قسم کے لوگ وفات پا گئے جنہیں دیکھ کر ہی اللہ تعالیٰ کی یاد آنے لگتی تھی جب یہ بزرگ فوت ہوگئے تو عبادت گزار لوگوں نے ان کے خلا کو بری طرح محسوس کیا شیطان نے انہیں پٹی پڑھائی کہ اگر تم ان بزرگوں کے مجسمے بنا کر سامنے رکھ لو تو تمہیں مطلوبہ فائدہ ہوسکتا ہے تمہارا اللہ کی عبادت میں اسی طرح دل لگا کرے گا جس طرح ان کی موجودگی میں لگا کرتا تھا۔ سادہ لوح لوگ شیطان کے اس فریب میں آگئے اور انہوں نے ان پانچ بزرگوں کے مجسمے بنا کر مسجدوں میں اپنے سامنے رکھ لیے۔ یہ لوگ تو ان مجسموں کو دیکھ کر اللہ ہی کی عبادت کرتے رہے مگر بعد میں آنے والی نسلوں نے انہی مجسموں کی پرستش شروع کردی اور جب سیدنا نوح علیہ السلام مبعوث ہوئے تو ان کی قوم بری طرح ان پانچ بزرگوں، جن کے نام ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر سورۃ نوح میں مذکور ہیں کی پرستش میں پھنس چکی تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ نوح) سیدنا نوح علیہ السلام کا مرکز تبلیغ :۔ نوح علیہ السلام کا مرکز دعوت عراق کا علاقہ تھا اور غالباً اس وقت دنیا کا صرف یہی علاقہ انسانوں سے آباد تھا اور ابتداً ء دجلہ و فرات کا درمیانی علاقہ آپ کی تبلیغ کا مرکز بنا۔ ماسوائے سیدنا آدم علیہ السلام کے باقی تمام انبیاء کی دعوت کا آغاز شرک سے امتناع اور خالص اللہ کی پرستش سے ہوتا ہے اور ایک بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح کا آغاز سیدنا نوح علیہ السلام نے بھی اسی دعوت سے کیا اور ساتھ ہی اس بات پر متنبہ کردیا کہ اگر تم شرک سے باز نہ آئے تو تم پر سخت قسم کا عذاب واقع ہوگا۔