إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
تمہارا پروردگار تو وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو چھ ایام میں (یعنی چھ دوروں میں یکے بعد دیگرے واقع ہوئے) پیدا کیا اور پھر (اپنی حکومت و جلال کے) تخت پر متمکن ہوگیا۔ (اس نے رات اور دن کی تبدیلی کا ایسا نظام ٹھہرایا ہے کہ) رات کی اندھیری دن کی روشنی کو ڈھانپ لیتی ہے اور (ایسا معلوم ہوتا ہے گویا) دن کے پیچھے لپکی چلی آرہی ہو اور (دیکھو) سورج، چاند، ستارے سب اس کے حکم کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ یاد رکھو ! اسی کے لیے پیدا کرنا ہے اور اسی کے لیے حکم دینا (اس کے سوا کوئی نہیں جسے کارخانہ ہستی کے چلانے میں دخل ہو) سو کیا ہی بابرکت ذات ہے اللہ کی تمام جہانوں کا پرورش کرنے والا۔
[٥٣] یہاں دن سے مراد ہمارا یہ ٢٤ گھنٹے کا دن نہیں جو سورج سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ یہ سورج تو اس وقت موجود ہی نہ تھا۔ قرآن کریم میں ایک اور مقام پر یوم کی مقدار ایک ہزار سال کا ذکر آیا ہے (٢٢ : ٤٧) اور دوسرے مقام پر پچاس ہزار سال کا (٧٠ : ٤) لہٰذا یہاں چھ دن سے چھ ادوار ہی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ حم السجدہ ٤١ کی آیات ٩ تا ١٢) [٥٤] استواء علی العرش کا مفہوم :۔ قرآن میں جہاں بھی استویٰ علی کا لفظ آیا ہے تو اس کے معنی قرار پکڑنا یا جم کر بیٹھنا ہے لیکن بعض عقل پرست فرقے جن میں جہمیہ اور معتزلہ سرفہرست ہیں آیت ﴿اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ﴾کا ترجمہ عرش پر متمکن ہوگیا یا کائنات کے نظام پر غالب آ گیا یا زمام اختیار و اقتدار سنبھالی وغیرہ کرتے ہیں اور استویٰ کے معنی استولیٰ سے کرتے ہیں جن کے متعلق امام ابن قیم نے فرمایا کہ نون الیھود ولام جھمی ھما------ فی وحی رب العرش زائد تان یعنی یہودیوں کا نون ( حطة کی بجائے حنطة کہنا) اور جہمیہ کالام (یعنی استویٰ کی بجائے استولیٰ سمجھنا) دونوں باتیں وحی الٰہی سے زائد ہیں۔ فرقہ جہمیہ کا تعارف :۔ جہمیہ فرقہ کا بانی جہم بن صفوان دوسری صدی ہجری کے آغاز میں ہشام بن عبدالملک (١٠٥ ھ تا ١٢٥ ھ) کے زمانہ میں ظاہر ہوا۔ یہ شخص ارسطو کے تجریدی نظریہ ذات باری سے متاثر تھا (ارسطو ایک یونانی فلاسفر تھا جو ذات باری کے وجود کا قائل تھا مگر تجریدی نظریہ رکھتا تھا اور آخرت کا منکر تھا) جہم اپنے زعم کے مطابق اللہ تعالیٰ کی مکمل تنزیہہ بیان کرتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی ان صفات کی نفی کرتا تھا جو کتاب و سنت میں وارد ہیں اور اس تنزیہہ میں اس نے اس قدر غلو اور مبالغہ سے کام لیا کہ بقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس نے اللہ تعالیٰ کو لاشے اور معدوم بنا دیا وہ اللہ تعالیٰ کے لیے جہت یا سمت مقرر کرنے کو شرک قرار دیتا تھا اور اس کی طرف ہاتھ، پاؤں، چہرہ، آنکھیں اور پنڈلی کی نسبت کرنے کو، جن کا قرآن میں ثبوت موجود ہے، ناجائز قرار دیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لیے عرش پر قرار پکڑنے یا اپنے ہاتھوں، آنکھوں، چہرے اور پنڈلی کا غیر مبہم الفاظ میں قرآن میں ذکر فرمایا ہے تو اس کی تنزیہہ خود اس سے زیادہ بہتر اور کون کرسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ اس کا عرش کیسا ہے یا اس نے کس طرح عرش پر قرار پکڑا ہے یا اس کا چہرہ، آنکھیں اور ہاتھ وغیرہ کیسے ہیں تو یہ جاننے کے ہم مکلف نہیں ہیں کیونکہ اس نے خود ہی فرمایا ہے کہ ﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ﴾نیز فرمایا ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ﴾ تو بس ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ جو کچھ کتاب و سنت میں مذکور ہے اسے جوں کا توں تسلیم کرلے اسے عقل اور فلسفہ کی سان پر چڑھا کر اس کی دوراز کار تاویلات و تحریفات پیش کرنا ایک مسلمان کا شیوہ نہیں ہوسکتا اور نہ قرآن ایسی فلسفیانہ موشگافیوں کا متحمل ہی ہوسکتا ہے کیونکہ جن لوگوں پر یہ قرآن نازل ہوا تھا وہ امی تھے اور فلسفیانہ موشگافیوں سے قطعاً نابلد تھے۔ صفات الہٰی میں بحثیں کرنے والے ملعون ہیں :۔ قرآن کی ایسی آیات جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات مذکور ہوں ان کی کرید کرنا اور ان کی عقلی توجیہات تلاش کرنا ان لوگوں کا کام ہے جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہوتی ہے اور وہ یہ کام کسی فتنہ انگیزی یعنی کسی نئے فرقے کی طرح ڈالنے کی خاطر کرتے ہیں جس کے وہ قائد شمار ہو سکیں اور اس طرح امت کو فرقہ بازی کے فتنے سے دو چار کردیتے ہیں (ملاحظہ ہو سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٧ اور ٨) اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَاۗیِٕہٖ﴾ یعنی جو لوگ اللہ کے اسماء (صفات الہی) میں ٹیڑھی راہیں اختیار کرتے ہیں ان کی کوئی بات نہ مانو یاد رہے کہ الحاد کا تعلق عموماً ایسے باطل عقائد سے ہوتا ہے جو صفات الٰہی سے متعلق ہوتے ہیں۔ [٥٥] یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کو پیدا کر کے عرش پر قرار پکڑنے کے بعد بیٹھ نہیں گیا جیسا کہ بعض دوسرے گمراہ فرقوں کا خیال ہے بلکہ وہ پوری کائنات پر اکیلا کنٹرول کر رہا ہے یہ سورج چاند ستارے اس کی مقرر کردہ چال کے مطابق اپنے اپنے کام پر لگے ہوئے ہیں اور اس کے حکم سے سرمو ادھر ادھر نہیں ہو سکتے اور کائنات میں جو کچھ تصرفات اور حوادث رونما ہو رہے ہیں سب اسی کے حکم اور اسی کی قدرت سے واقع ہوتے ہیں۔ [٥٦] حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ کے لیے ہے :۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ کائنات کی ایک ایک چیز کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہو اور تدبیر امور کائنات میں دوسرے بھی اس کے ساتھ شامل ہوجائیں کوئی بارش برسانے کا دیوتا ہو تو کوئی فصلیں پیدا کرنے والا اور کوئی دوسرا مال و دولت عطا کرنے والا ہو۔ جو چیزیں خود اللہ تعالیٰ کے فرمان کے آگے بے بس اور مجبور ہوں وہ دوسری چیزوں پر کیا حکم چلا سکتی ہیں؟ اور انسانی زندگی پر کیسے اثر انداز ہو سکتی ہیں؟ مالک ہی یہ حق رکھتا ہے کہ اپنی مملوکہ چیز میں جیسے چاہے تصرف کرے اور مملوک اسی کا تابع فرمان ہو۔ اگرچہ ربط مضمون کے لحاظ سے یہاں ستارہ پرستی کا رد مقصود ہے تاہم اس جملہ کا حکم عام ہے۔ یعنی اس دنیا میں انسانوں پر اللہ کے حکم کے سوا کسی دوسرے کا حکم چلنے کی کوئی وجہ نہیں۔ انسان اللہ کی مخلوق ہیں اور اسی کا عطا کردہ رزق کھاتے ہیں لہٰذا یہاں نہ حاکم کو اختیار ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے خلاف کوئی حکم دے اور نہ عام انسانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کے حکم کے سوا کسی دوسرے کا حکم مانیں۔ جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جس کام میں اللہ کی نافرمانی ہوتی ہو ایسے کام میں کسی مخلوق کی اطاعت نہ کرنی چاہیے۔ نیز اس آیت کی رو سے نظام خلافت کے سوا باقی سب نظام ہائے سیاست باطل قرار پاتے ہیں جن میں اللہ کے سوا دوسروں کا قانون نافذ ہوتا ہے۔ [٥٧] برکت کا مفہوم :۔ برکت کا مطلب یہ ہے کہ جن متوقع فوائد اور خیر و بھلائی کے لیے کوئی چیز پیدا کی گئی ہے وہ پورے کے پورے فوائد اس سے حاصل ہوجائیں یہاں اللہ تعالیٰ کے بابرکت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی کوئی بھی چیز جس مقصد اور خیر و بھلائی کے لیے بنائی تھی اس سے پورے کے پورے مقاصد حاصل ہو رہے ہیں۔