وَإِذَا صُرِفَتْ أَبْصَارُهُمْ تِلْقَاءَ أَصْحَابِ النَّارِ قَالُوا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اور جب ان لوگوں کی نگاہ دوزخیوں کی طرف پھری (اور ان کی ہولناک حالت نظر آئی) تو پکار اٹھے اے پروردگار ! ہمیں ظالم گروہ کے ساتھ شامل نہ کیجیو۔
[٤٨] اہل اعراف کا اہل دوزخ سے مکالمہ :۔ یعنی اصحاب اعراف دوزخیوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کریں گے کیونکہ وہ خود بھی بیم و رجاء کی حالت میں ہوں گے دوزخ سے ڈر رہے ہوں گے اور جنت کی آس لگائے ہوئے ہوں گے لہٰذا ان کی آنکھوں کو اہل جہنم کی طرف پھیرا جائے گا تو پہلی بات جو ان کے منہ سے نکلے گی وہ یہ ہوگی کہ اے اللہ! ہمیں ان ظالم لوگوں میں شامل نہ کرنا۔ پھر جب نظر پڑ ہی گئی تو سب سے پہلی بات جو وہ اہل دوزخ سے پوچھیں گے یہ ہوگی کہ آج تمہارا وہ جتھا کہاں گیا جس کے متعلق شیخیاں بگھارا کرتے تھے۔ جیسا کہ جب سورۃ مدثر کی یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’دوزخ پر انیس داروغے مقرر ہیں‘‘ تو کافر کہنے لگے کہ ’’ہم تو ہزاروں کی تعداد میں ہیں ہم میں سے دس آدمی بھی ایک کا مقابلہ نہ کرسکیں گے؟ پھر ان میں سے ایک پہلوان قسم کا آدمی کہنے لگا کہ ان میں سے سترہ کو تو میں سنبھال لوں گا باقی دو کے لیے تم سب بھی کافی نہ ہو گے‘‘ اور دوسری بات وہ اہل دوزخ سے یہ کہیں گے کہ دیکھ لو جنت میں وہی لوگ جا رہے ہیں جنہیں تم فقیر مسکین اور غلام کہہ کر حقیر سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’ایسے لوگوں پر اللہ کی رحمت کیسے ہو سکتی ہے؟ اور اگر ہونا ہوتی تو یہاں اس دنیا میں بھی اس رحمت کا کچھ حصہ انہیں مل جاتا۔‘‘ انہیں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ آج بلاخوف و خطر جنت میں داخل ہوجاؤ اس طرح اصحاب اعراف اہل دوزخ پر ان کی کذب بیانی، ان کے تکبر اور غلط تصورات کو واضح کردیں گے۔