سورة الاعراف - آیت 43

وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ ۖ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ ۖ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۖ وَنُودُوا أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) ان لوگوں کے دلوں میں (ایک دوسرے کی طرف سے) جو کچھ کینہ و غبار تھا ہم نے نکال دیا، ان کے تلے (آگ کے شعلوں کی جگہ) نہریں رواں ہیں۔ انہوں نے (ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے کی جگہ) کہا ساری ستائش اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اس (زندگی) کی راہ دکھائی۔ ہم کبھی اس کی راہ نہ پاتے اگر وہ ہماری رہنمائی نہ کرتا۔ بلا شبہ ہمارے پروردگار کے پیغمبر سچائی کا پیغام لے کر آئے تھے، اور (دیکھو) انہوں نے پکار سنی، یہ ہے جنت جو تمہارے ورثہ میں آئی ان (نیک) کاموں کی بدولت جو تم (دنیا میں) کرتے رہے ہو۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٢] ٭جنت میں داخلے سے پہلے باہمی کدورتوں کا خاتمہ :۔ یہاں لفظ غل استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں خفگی’’ میل‘‘ کدورت ’’کینہ‘‘ حسد وغیرہ۔ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جنت میں داخل ہونے والوں میں سے اگر کسی کے دل میں دوسرے کے متعلق کچھ ملال، خفگی، میل و کدورت اس دنیا میں رہی ہوگی اور کسی ناگوار واقعہ کی یاد کسی کے دل میں موجود ہوگی تو جنت میں داخلے سے پیشتر ایسے ملال کو اللہ تعالیٰ دلوں سے محو کردیں گے، انہیں کچھ یاد ہی نہ رہے گا اور وہ ایک دوسرے کے متعلق بالکل صاف دل ہو کر جنت میں داخل ہوں گے اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنت کے سو درجے ہیں اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق درجہ ملے گا اور یہ ممکن ہے کہ نچلے درجے والوں کے دلوں میں اوپر کے درجے والوں کی نسبت حسد پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسی صورت میں ہم ان کے دل سے حسد نکال دیں گے ہر ایک اپنے اپنے درجے پر قانع اور مطمئن ہوگا اور بلند درجات والوں کے لیے اس کے دل میں حسد وغیرہ مطلقاً نہ ہوگا۔ [ ٤٣] ٭اسلام کی اعلیٰ اخلاقی تعلیم کی مثالیں :۔ یہ آیت اسلام کی اعلیٰ اخلاقی تعلیم اور لوگوں کے باہمی معاملات کو استوار اور خوشگوار رکھنے کا ایک نادر نمونہ ہے۔ اگرچہ اس میں کچھ متضاد باتیں بھی معلوم ہو رہی ہیں۔ میں پہلے اس کی ایک دو مثالیں بیان کروں گا۔ مثلاً دیکھیے زید بکر سے کچھ رقم ایک مقررہ مدت کے لیے قرض لیتا ہے۔ اب بکر کو یہ حکم ہے کہ اگر زید مقررہ وعدہ کے مطابق قرض ادا نہیں کرسکا یا ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو وہ اسے مزید مہلت دے دے اور اس اضافی مہلت کا ایک ایک دن اس کے لیے صدقے کا ثواب ہوگا اور اگر وہ معاف ہی کر دے تو اس کے لیے اور بھی بہتر ہے۔ (٢ : ٢٨٠) کیونکہ ایسے شخص کو اللہ نے اس کے گناہ معاف کردینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ دوسری طرف مقروض یعنی زید کو یہ تاکیدی حکم دیا کہ وہ اپنے کیے ہوئے عہد کو پورا کرے اور مقررہ وقت پر یا اس سے پہلے قرضہ ادا کر دے اور اگر وہ قرضہ ادا کیے بغیر مر گیا تو اس کی نجات نہ ہوگی تاآنکہ اس کے وارثوں میں سے کوئی شخص اس کے قرضے کی ادائیگی نہ کر دے یا کوئی شخص اس کے قرضے کی ادائیگی کا ضامن نہ بن جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے مقروض کی نماز جنازہ اس وقت تک نہیں پڑھاتے تھے جب تک اس کے قرضے کا کوئی ضامن نہ بن جاتا ورنہ آپ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے فرما دیتے کہ تم خود ہی اپنے بھائی پر نماز جنازہ پڑھ لو۔ (بخاری۔ کتاب فی الاستقراض، باب الصلوۃ علی من ترک دینا ) اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ مثلاً زید بکر پر کوئی احسان کرتا ہے اب بکر کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ بھی کسی وقت اس کے اس احسان کا بدلہ دے اور اگر وہ اس پوزیشن میں نہیں تو کم از کم اس کا شکریہ ہی ادا کر دے اور اگر دونوں کام کرے تو اور بھی اچھی بات ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں ہی کا شکریہ ادا نہیں کرتا (جن کا احسان اسے محسوس بھی ہو رہا ہے) تو وہ اللہ کا کیا شکر ادا کرے گا۔ (ترمذی۔ ابو اب البروالصلہ، باب فی الشکرلمن احسن الیک) دوسری طرف زید (احسان کرنے والے) کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ بکر سے نہ کسی بدلہ احسان کی توقع رکھے اور نہ شکریے کی۔ (٧٦ : ٩) ٭ جنت کا ملنا محض اللہ کی رحمت ہے :۔ بالکل یہی صورت اس آیت میں ہے جنت میں داخل ہونے والے لوگ یہ کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی توفیق اور دستگیری اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہنمائی ہمیں نصیب نہ ہوتی تو ہم اس جنت تک پہنچ ہی نہ سکتے تھے یہ تو محض اللہ کا فضل ہے کہ ہمیں یہ جنت ملی ہے دوسری طرف اللہ تعالیٰ ان اہل جنت کی حوصلہ افزائی کی خاطر فرما رہے ہیں کہ یہ جنت تمہارے ہی ان اعمال کا بدلہ ہے جو تم دنیا میں کرتے رہے اور اس بات کو بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد بار ذکر کیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص اس دنیا میں کتنے ہی نیک اعمال کرلے وہ تو اللہ کے سابقہ احسانات کا بدلہ بھی نہیں چکا سکتا پھر جنت کا حق دار کیسے ہوسکتا ہے اسی حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ بیان فرمایا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں یا رسول اللہ ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے اعمال کے بدلے میں جنت میں نہ جا سکیں گے؟ فرمایا : ’’میں بھی نہیں‘‘ پھر فرمایا : ((إلا أن یتغمدنی اللہ برحمۃ))’’اِلا یہ کہ اللہ اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل ) ٭جنت کی نعمتیں :۔ مزید برآں اس آیت میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جنت تمہیں بطور ورثہ دی جا رہی ہے اور ورثہ پانے کا مدار کسی عمل پر نہیں ہوتا۔ دوسرا اشارہ اس میں یہ پایا جاتا ہے کہ یہ وہی جنت ہے جس سے تمہیں نکالا گیا تھا چونکہ تم نے دنیا کی زندگی اللہ کے فرمانبردار بن کر گزاری ہے اس لیے وہی جنت تمہیں بطور ورثہ عطا کی جا رہی ہے اور اہل جنت کو بن مانگے وہاں نعمتیں میسر ہوں گی۔ ان کا ذکر درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ دونوں سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : ایک منادی ندا کرے گا: ’’اے اہل جنت! تم تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہو گے زندہ رہو گے تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ جوان رہو گے، تم پر کبھی بڑھاپا نہیں آئے گا، عیش میں زندگی گزارو گے تمہیں کبھی حزن و ملال نہ ہوگا۔‘‘ یہی مطلب ہے اللہ کے اس فرمان کا۔ ﴿وَتَوَدُّوْا .... تَعلمون﴾ (مسلم۔ کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھا واھلھا )