وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
اور (دیکھو) ہر امت کے لیے ایک ٹھہرایا ہوا وقت ہے سو جب کسی امت کا ٹھہرایا ہوا وقت آگیا تو پھر نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتی ہے نہ ایک گھڑی آگے (جو کچھ اس کے لیے ہونا ہے ہو گزرتا ہے) (١٢)
اجل جب آگئی تو پیچھے یا آگے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس کی مثال یوں سمجھیے کہ جیسے کوئی گاہک کسی دوکاندار سے کسی چیز کی قیمت پوچھنے کے بعد کہتا ہے کہ کوئی کمی بیشی، دوکاندار کہتا ہے قیمت تو میں نے پہلے ہی ٹھیک بتائی ہے کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی، گفتگو میں گاہک اور دوکاندار دونوں کا لفظ کمی بیشی سے مراد صرف کمی ہوتا ہے بیشی نہیں ہوتا، اسی طرح یہاں بھی جب کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو پھر قطعاً تاخیر نہیں ہوسکتی، اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے عروج و زوال کا ایک ضابطہ مقرر کر رکھا ہے اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ جب کسی قوم کے گناہوں کا ڈول بھر جاتا ہے تو یہی وقت اس کی تباہی کا وقت ہوتا ہے اور اس کا تعلق مدت یا عرصے سے نہیں بلکہ فساد فی الارض سے ہوتا ہے۔ اقبال کا شعر ہے: میں تجھ کو بتاتاہوں کہ تقدیر اُمم کیا ہے شمشیر و سناں اوّل طاؤس و رباب آخر