سورة الاعراف - آیت 32

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

( اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہو خدا کی زینتیں جو اس نے اپنے بندوں کے برتنے کے لیے پیدا کی ہیں اور کھانے پینے کی اچھی چیزیں کس نے حرام کی ہیں۔ تم کہو یہ (نعمتیں) تو اسی لیے ہیں کہ ایمان والوں کے کام آئیں، دنیا کی زندگی میں (زندگی کی مکروہات کے ساتھ اور) قیامت کے دن (ہر طرح کی مکروہات سے) خالص دیکھو، اس طرح ہم ان لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں جو جاننے والے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مشرکین نے جس طرح طواف کے وقت لباس کو نا پسندیدہ قرار دے رکھا تھا اور برہنہ ہو کر طواف کرتے تھے، اسی طرح بعض چیزیں اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اپنے اوپر حرام کرلی تھیں۔ اور بہت سی چیزیں اپنے بتوں کے نام وقف کرکے حرام گردانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سب چیزیں ایمان والوں اور عبادت کرنے والوں کے لیے ہی تیار کی ہیں گو دنیا میں ان کے ساتھ اور لوگ بھی ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن قیامت کے دن یہ الگ کردیے جائیں گے اور صرف مومن ہی اللہ کی نعمتوں سے نواز ے جائیں گے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تین آدمی (عمرو بن عاص، علی، اور عثمان بن مظعون) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے آپ کی عبادت کا حال پوچھا۔ جب انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر دی گئی تو انھوں نے اسے کمتر سمجھا اور کہا ’’کہاں ہم کہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تو اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف ہوچکیں۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا میں ساری رات قیام کروں گا۔ دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزے رکھوں گا۔ تیسرے نے کہا، میں نکاح نہ کروں گا عورتوں سے الگ رہوں گا، جب یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے ان سے فرمایا ’’سنو! اللہ کی قسم میں تم سب زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور سب سے زیادہ متقی ہوں لیکن میں روزے رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں اب جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی اُس کا مجھ سے کوئی سروکار نہیں۔ (بخاری: ۵۰۶۳) بعض صوفیاء بھی ایسا کرتے ہیں یعنی کم خوراک کھاتے ہیں اور لذائذ دنیا ترک کرتے اور نکاح سے پرہیز کرتے ہیں کہ یہ روحانی ارتقا میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ اسلام میں روحانی ارتقا کا راستہ ترک دنیا پر قطعاً منحصر نہیں۔ یہ پابندیاں ان کی خود ساختہ ہیں اللہ نے نہیں لگائیں۔