بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ أَن يَكْفُرُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَن يُنَزِّلَ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ
(افسوس ان کی شقاوت پر) کیا ہی بری قیمت ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کا سودا چکایا ! انہوں نے اللہ کی بھیجی ہوئی سچائی سے انکار کیا، اور صرف اس لیے انکار کیا کہ وہ جس کسی پر چاہتا ہے اپنا فضل کردیتا ہے (اس میں خود ان کی نسل و جماعت کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنی بدعملیوں کی وجہ سے پہلے ہی ذلیل و خوار ہوچکے تھے، لیکن اس نئے انکار سے اور زیادہ ذلت و خواری کے سزاوار ہوئے) پس اللہ کا غضب بھی ایک کے بعد ایک ان کے حصے میں آیا اور اس کا قانون یہی ہے کہ انکار حق کرنے والوں کے لیے (ہمیشہ) رسوا کرنے والا عذاب ہوتا ہے
یعنی اس بات كی معرفت كے بعد كہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی آخری نبی ہیں ، جن كے اوصاف تورات و انجیل میں مذكور ہیں اور اجن كی وجہ سے ہی اہل كتاب ان كے ’’نجات دہندہ‘‘ كے طور پر منتظر بھی تھے۔ لیكن ان پر محض اس جلن اور حسد كی وجہ سے ایمان نہیں لاتے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری نسل میں كیوں نہ ہوئے، جیسا كہ ہمارا گمان تھا، یعنی ان كا انكار دلائل پر نہیں نسلی منافرت اور حسد و عناد پر مبنی تھا۔ ’’غضب پر غضب ‘‘ كا مطلب ہے بہت زیادہ غضب، كیونكہ بار بار وہ غضب والے كام كرتے رہے، یہود كے جرائم كی فہرست تو بہت طویل ہے جن میں سر فہرست ایك نبی كی موجودگی میں بچھڑے كی پرستش، انبیا كا قتل، دیدہ دانستہ نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم كی رسالت كا انكار، ایسے جرائم كی سزا تو جتنی بھی ہو وہ كم ہے۔