قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ
اس پر ابلیس نے کہا، چونکہ تو نے مجھ پر راہ بند کردی تو اب میں بھی ایسا ضرور کروں گا کہ تیری سیدھی راہ سے بھٹکانے کے لیے بنی آدم کی تاڑ میں بیٹھوں۔
ابلیس کا اللہ تعالیٰ پر الزام: گمراہ تو وہ اللہ کی مشیت کے تحت ہوا، لیکن اس نے اپنی نافرمانی اور گمراہی کاالزام اللہ تعالیٰ پر لگا دیا جسے مشرک کہتے تھے کہ اگراللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔ ابلیس نے خدا کو چیلنج کیا یعنی اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جو مہلت آپ نے مجھے قیامت تک کے لیے دی ہے میں اس سے فائدہ اٹھا کر یہ ثابت کرنے کی پور ی پوری کوشش کروں گا کہ انسان اس فضیلت کا مستحق نہیں جو آپ نے میرے مقابلے میں اُسے عطا کی ہے۔ اور میں آپ کو دکھا دوں کہ وہ کیسا نا شکرا، کیسا احسان فراموش ہے مطلب یہ ہے کہ میں ہر خیر و شر کے راستے پر بیٹھونگا، خیر سے ان کو روکوں گا اور شر کو ان کی نظروں میں پسندیدہ بناکر ان کو اختیار کرنے کی ترغیب دونگا۔ اور اکثر لوگوں کو شرک میں مبتلا کردونگا، شیطان نے فی الواقع اپنا یہ گمان سچا کر دکھایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ (سبا: ۲۰) شیطان نے اپنا گمان سچا کر دکھایا، اور مومنوں کے ایک گروہ کو چھوڑ کر سب لوگ اس کے پیچھے لگ گئے ہیں۔ اس لیے قرآن میں اور حدیث میں اس کے مکرو فریب سے بچنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔