فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ
تو دیکھو یقینا ہم ان لوگوں سے بازپرس کریں گے جن کی طرف پیغمبر بھیجے گئے (کہ انہوں نے پیغمبروں کی دعوت پر کان دھرا یا نہیں) اور یقینا پیغمبروں سے بھی باز پرس ہوگی (کہ انہوں نے فرض رسالت ادا کیا یا نہیں)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ آخرت کی باز پُرس سراسر رسالت ہی کی بنیاد پر ہوگی ایک طرف پیغمبروں سے سوال ہوگا کہ تم نے نوع انسانی تک خدا کا پیغام پہنچانے میں کیا کچھ کیا، اور دوسری طرف جن انسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچا، ان سے سوال کیا جائے گا کہ اس پیغام کے ساتھ تم نے کیا برتاؤ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’تم میں سے ہر ایک با اختیار ہے اور اپنے زیر اختیار لوگوں کی بابت اس سے سوال کیا جانے والا ہے۔ بادشاہ سے اس کی رعایا کا، ہر آدمی سے اس کے اہل و عیال کا، ہر عورت سے اس کے خاوند کا گھر کا، ہر غلام سے اس کے آقا کے مال کا سوال ہوگا ۔ (بخاری: ۸۹۳) قیامت کے دن اعمال نامے رکھے جائیں گے اور سارے اعمال ظاہر ہوجائیں گے، اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اعمال کی خبر دے گا، کسی کے عمل کے وقت اللہ غائب نہ تھا، ہر ایک چھوٹے بڑے، کھلے چھپے عمل کی خبر اللہ کی طرف سے دی جائے گی۔ اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں اور نہ ہی وہ غافل ہے۔ آنکھوں کی خیانت سے سینوں کی چھپی ہوئی باتوں کا جاننے والا ہے۔ ہر پتّے کے جھڑنے کا اس کو علم ہے زمین کے اندھیروں میں جو دانہ ہوتا ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے تر اور خشک چیز اسکی کھلی کتاب میں درج ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی اس وضاحت کے باوجود فرد جرم ان پر عائد نہیں کی جائے گی بلکہ ان کے اعضاء و جوارع کو زبان دی جائے گی جو مجرموں کے خلاف شہادت دیں گے پھر جب شہادت کا نصاب تکمیل ہوجائے گا تو اس وقت ان پر فرد جرم عائد کرکے سزا دی جائے گی۔