فَمَا كَانَ دَعْوَاهُمْ إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا إِلَّا أَن قَالُوا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ
پھر جب عذاب کی سختی نمودار ہوئی تو (انکار و شرارت کا سارا دم خم جاتا رہا) اس وقت ان کی پکار اس کے سوا کچھ بھی نہ تھی کہ بلا شبہ ہم ظلم کرنے والے تھے۔
عذاب آنے کے بعد ایسے اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں جیسا کہ قرآن میں ہے۔ ﴿فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَ﴾ (المومن: ۸۵) ’’جب ہمارا عذاب انھوں نے دیکھ لیا۔ تو اس وقت ان کا ایمان لانا نفع مند نہیں ہوا۔‘‘ مجرم جب پکڑا جاتا ہے تو پھر اقرار جرم کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ عمل کی مہلت ختم ہوجاتی ہے توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ سخت نادان ہے وہ شخص جو داعیان حق کی دعوت کو بہرے کانوں سے سنے جاتے ہیں اور خدا کی دی ہوئی مہلت کو غفلتوں اور سرشاریوں میں ضائع کردیتے ہیں اور ہوش میں اس وقت آتے ہیں جب اللہ کی گرفت کا مضبوط ہاتھ ان پر پڑچکا ہوتا ہے ایسے وقت میں ہوش میں آنے کا کوئی فائدہ حسرت و اندوہ کے سوا نہیں ہوتا۔