اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ
(اے لوگو) جو کچھ تمہارے پروردگار کی جانب سے تم پر نازل ہوا ہے اس کی پیروی کرو اور خدا کو چھوڑ کر اپنے (ٹھہرائے ہوئے) مددگاروں کے پیچھے نہ چلو (افسوس تم پر) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم نصیحت پذیر ہو۔
اس کی پیروی کرو: یہی اسلام ہے اللہ کے حاکم ہونے کااعتراف ہے۔ اللہ کی اطاعت ہی دین ہے۔ یعنی جو احکامات و قوانین اس کتاب میں موجود ہیں۔ آپ صرف انہی کا اتباع کیجئے، انسان کو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جس ہدایت و راہنمائی کی ضرورت ہے، اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنے وجود کی غرض و غائیت سمجھنے کے لیے جو علم اُسے درکار ہے، اپنے اخلاق، تہذیب، معاشرت، اور تمدن کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جن اصولوں کا وہ محتاج ہے ان سب کے لیے اُسے صرف اللہ رب العالمین کو اپنا راہنما و راہبر تسلیم کرنا چاہیے، اور صرف اُسی ہدایت کی پیروی کرنا چاہیے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے بھیجی ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی پیروی اختیار کرنا، جیسے زمانہ جاہلیت میں سرداروں، نجومیوں اور کاہنوں کی بات کو اہمیت دی جاتی تھی، جس کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں ہی نکلے گا۔ تھوڑے ہی نصیحت مانتے ہو: تم بہت تھوڑے ہی ہو جو نصیحت قبول کرتے ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ﴾ (الانعام: ۱۱۶) ’’اگر تم لوگوں کی اکثریت کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں بھٹکا دیں گے و ہ تو محض گمان کی باتیں کرتے ہیں۔‘‘ عدی بن حاتم نے کہا ’’ہم تو ان کے علماء کو رب نہیں مانتے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا تم ان کے حلال کوحلال اور حرام کو حرام نہیں مانتے عدی نے کہا ہاں یہ ٹھیک ہے۔‘‘ (بخاری: ۲۰۵۱)