كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ
( اے پیغمبر) یہ کتاب ہے (١) جو تم پر نازل کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو (انکار و بدعملی کی پاداش سے) خبردار ہوشیار کردو اور اس لیے کہ ایمان رکھنے والے کے لیے بیدار و نصیحت ہو۔ دیکھو ایسا نہ ہو کہ اس بارے میں کسی طرح کی تنگ دلی تمہارے اندر راہ پائے۔
کتاب سے مراد: یہاں مراد یہی سورۃ اعراف ہے اور قرآن میں جب کبھی سورۃ کی ابتداء میں کتاب کا لفظ آتا ہے تو اُس کا معنی وہ سورہ ہی ہوتا ہے گویا قرآں کریم کی ہر سورۃ اپنی ذات میں مکمل قرآن ہے اور قرآن ایسی ہی 114سورتوں (کتابوں) پر مشتمل ہے جیسا کہ قرآن میں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً۔ فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ﴾ (البینۃ: ۲۔ ۳) اللہ تعالیٰ کا ایک رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) جو پاک صحیفے پڑھے۔ جن میں صحیح اور درست احکام ہوں۔ دل میں گھٹن نہ ہو: جب کبھی کوئی سورۃ نازل ہوتی آپ لوگوں کو سناتے تو کافروں کی طرف سے رد عمل یہ ہوتا کبھی صاف انکار کردیتے، کبھی مذاق اڑاتے، کبھی اعتراضات کرتے، کبھی حسی معجزہ کا مطالبہ کرتے اس وجہ سے آپ کی طبیعت بعض اوقات بہت پریشان ہوتی اور آپ گھٹن محسوس کرتے اللہ تعالیٰ تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں یہ کتاب تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے آپ بغیر کسی جھجک اور خوف سے اسے لوگوں تک پہنچادو۔ اور اس بات کی کچھ پرواہ نہ کرو کہ مخالفین اس کا کیسا استقبال کریں گے۔ وہ بگڑتے ہیں تو بگڑیں، مذاق اڑاتے ہیں تو اڑائیں، طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں تو بنائیں، دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوتے ہیں تو ہوجائیں، آپ بلا کھٹکے اس پیغام کو پہنچاؤ۔ حرج یا گھٹن کیسے ہوتی ہے: حرج گھنی جھاڑی کو کہتے ہیں جب آگے بڑھنے کا راستہ نہیں ملتا تو دل میں گھٹن یاتنگی محسوس ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ﴿وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ﴾ (الحجر: ۹۷) (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تم دل تنگ ہوتے ہو یعنی تمہیں پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ جن لوگوں کی ضد اور ہٹ دھرمی اور مخالفت حق کا یہ حال ہے انھیں آخر کس طرح سیدھی راہ پر لایا جائے، جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا يُوْحٰى اِلَيْكَ وَ ضَآىِٕقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ﴾ (ہود: ۱۲) فرمایا ’’پس شاید کہ آپ وحی کے کسی حصے کو بیان کرنے سے چھوڑ دیں جو آپ كی طرف نازل کی جاتی ہے۔ اور اس سے آپ کا دل تنگ ہو۔‘‘ صرف ان کی اس بات پر کہ اس پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اترا، یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ ہی آتا، سن لیجئے آپ تو صرف ڈرانے والے ہی ہیں، ہر چیز کا ذمہ دار اللہ ہی ہے۔ مطلب یہ ہے سورت کا اصل مقصد تو ڈرانا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول نہ کرنے کے نتائج سے ڈرانا، غافلوں کو چونکانا اور متنبہ کرنا ہے ۔ یاد دہانی سے مراد قرآن مومنو ں کے لیے نصیحت و عبرت ہے اور یاد دہانی بھی جو ان کے ایمان کو مزید پختہ اور مضبوط بنادے گی۔