وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَل لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَّا يُؤْمِنُونَ
اور (یہ لوگ اپنے جماؤ اور بے حسی کی حالت پر فخر کرتے ہیں، اور) کہتے ہیں ہمارے دل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں (یعنی اب کسی نئی بات کا اثر ان تک پہنچ ہی نہیں سکتا حالانکہ یہ اعتقاد کی پختگی اور حق کا اثبات نہیں ہے) بلکہ انکار حق کے تعصب کی پھٹکار ہے (کہ کلام حق سننے اور اثر پذیر ہونے کی استعداد ہی کھو دی) اور اسی لیے بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ دعوت حق سنیں اور قبول کریں
یہود كا قول كہ ’’ہمارے دل غلافوں میں بند ہیں‘‘ انسان كی یہ عادت ہے كہ وہ اپنی بُری صفات كو بھی خوبصورت بنا كر دكھانےكی كوشش كرتا ہے اور حقیقت كا اعتراف كر لینا اس كے لیے بہت مشكل ہوتا ہے۔ یہی حالت یہودیوں كی تھی كہ وہ دین حق كو برحق سمجھ لینے كے باوجود اسے قبول تو اس لیے نہیں كرتے تھے كہ اس طرح ان كا مذہبی تفوق و اقتدار خطرہ میں پڑ جاتا بلكہ چھن جاتا تھا مگر بظاہر اسے یوں پیش كرتے تھے كہ ہمارے عقائد اتنے مضبوط ہیں كہ وہ كوئی نیا عقیدہ قبول نہیں كر سكتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : بلكہ یہ اپنے كفر اور ہٹ دھرمی كی وجہ سے ملعون بن چكے ہیں اور یہ اس لعنت كا اثر ہے كہ ان كے دل حق بات كو قبول نہیں كرتے۔