وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۗ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں ایک دوسرے کا جانشین بنایا، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو دوسروں سے درجات میں بلندی عطا کی، تاکہ اس نے تمہیں جو نعمتیں دی ہیں ان میں تمہیں آزمائے۔ یہ حقیقت ہے کہ تمہارا رب جلد سزا دینے والا ہے، اور یہ (بھی) حقیقت ہے کہ وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔
انسان کا امتحان انہی چیزوں پر ہے جو اللہ نے اسے دے رکھی ہیں: یعنی کوئی امیر ہے کوئی غریب ہے کوئی عالم ہے کوئی جاہل ہے کوئی عقلمند ہے کوئی بیوقوف ہے کسی میں قوت کار کی استعداد زیادہ ہے کسی میں کم، کوئی جسمانی لحاظ سے مضبوط اور طاقتور اور کوئی کمزور ہے کوئی خوش خوہے کوئی بد اخلاق، کوئی خوبصورت ہے کوئی بدصورت یہ بھی اس کی حکمت ہے اسی نے روزیاں تقسیم کی ہیں۔ ایک کو ایک کا ماتحت کردیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اُنْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ﴾ (بنی اسرائیل: ۲۱) دیکھ لے کہ ہم نے ان میں سے ایک کو ایک پر کیسے فضیلت دی۔ مقصد یہ ہے کہ اس طرح آزمائش و امتحان ہوجائے، امیروں کا شکر اور غریبوں کا صبر معلوم ہوجائے۔ رسول اللہ نے فرمایا : ’’دنیا میٹھی اور سبز رنگ ہے ۔‘‘ اللہ تمہیں اس میں خلیفہ بناکر دیکھ رہا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو۔ پس تمہیں دنیا سے ہوشیار رہنا چاہیے اور عورتوں کے بارے میں بہت احتیاط سے رہنا چاہیے۔ بنو اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتیں ہی تھیں۔ اس صورت کے آخر میں اپنے دونوں وصف بیان فرمائے۔ عذاب کا بھی ثواب کا بھی۔ پکڑ کا بھی اور بخشش کا بھی، اپنے نافرمانوں پر ناراضگی کا اور اپنے فرمانبرداروں پر رضا مندی کا۔ قرآن کریم میں عموماً یہ دونوں صفات ایک ساتھ بیان کی جاتی ہیں۔ (مسلم: ۲۷۴۲، ابن کثیر: ۲/ ۳۲۴) ﴿وَ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰى ظُلْمِهِمْ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ (الرعد: ۶) ’’تیرا رب اپنے بندوں کے گناہ بخشنے والا بھی ہے اور وہ سخت اور درد ناک عذاب دینے والا بھی ہے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ اپنے فضل کا اور جنت کا لالچ بھی دیتا ہے اور وہ سخت اور دردناک عذاب دینے والا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے احکام کی پابندی اور اپنی ناراضگی کے کاموں سے نفرت نصیب فرمائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے کیے جن میں سے ننانوے اپنے پاس رکھے اور ایک حصہ زمین پر نازل فرمایا اسی ایک حصے سے بندے ایک دوسرے پر رحم و شفقت کرتے ہیں یہاں تک کہ جانور بھی اپنے بچے کے جسم پر سے پاؤں رحم کھا کر اٹھا لیتا ہے کہ کہیں اسے تکلیف نہ ہو۔ (بخاری: ۶۰۰۰، مسلم: ۲۷۵۲) الحمد للہ سورۃ انعام کی تفسیر ختم ہوئی ۔