قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
(اے پیغمبر) کہہ دو کہ میرے پروردگار نے مجھے ایک سیدھے راستے پر لگا دیا ہے جو کجی سے پاک دین ہے، ابراہیم کا دین۔ جنہوں نے پوری طرح یکسو ہو کر اپنا رخ صرف اللہ کی طرف کیا ہوا تھا، اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا ذکر اس لیے فرمایا کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین تینوں فریق انھیں اپنا پیشوا مانتے تھے اور یہ بھی مانتے تھے کہ ابراہیم خالص ایک اللہ ہی کی پرستش کرتے تھے اور یہ بھی اعتراف کرتے تھے کہ آپ بُت پرست نہیں تھے۔ تمام انبیاء نے بھی توحید ہی کی دعوت دی۔ جس طرح اس آیت میں اپنے پیغمبر کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا کہ ’’مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں۔‘‘ جیسا کہ قرآن میں ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الانبیاء: ۲۵) ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء بھیجے، سب کو یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس تم میری ہی عبادت کرو۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی یہ اعلان فرمایا ﴿وَ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ﴾ [یونس: ۷۲] اور مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے رہوں۔ حضرت یوسف کی دعا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا﴾ (یوسف: ۱۰۱) مجھے اسلام کی حالت میں دنیا سے اٹھانا حضرت ابراہیم کی دعا ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ (البقرۃ: ۱۳۱) جب اللہ نے ان سے کہا (السِّلْمِ) فرمانبردار ہوجا تو انھوں نے فرمایا رب العالمین کا فرمانبردار ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میری سیدھی راہ یہی ہے جس پر ابراہیم گامزن تھے۔ لہٰذا تم الگ عقیدے گھڑ کر دین میں شامل نہ کرو، اور اس طرح الگ الگ فرقے نہ بنو۔ ابراہیم اللہ کے سچے فرمانبردار تھے۔ مشرک نہ تھے۔ اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، اللہ کے پسندیدہ تھے، راہ مستقیم کی ہدایت پائے ہوئے تھے۔ دنیا میں بھی ہم نے انھیں بھلائی دی اور قیامت میں بھی نیکو کار لوگوں میں ہونگے، اس لیے حضور کو بھی آپ کی ملت کی پیروی کا حکم دیا، ایک حدیث میں کہ میں نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں، تمام اولاد آدم کا سردار ہوں، مقام محمود والا ہوں جس سے ساری مخلوق کو اُمید ہوگی یہاں تک کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو بھی، یعنی رسول اللہ خاتم النبیین ہیں۔‘‘ (بخاری: ۷۴۴۰)