قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
(ان سے) کہو کہ : آؤ، میں تمہیں پڑھ کر سناؤں کہ تمہارے پروردگار نے (درحقیقت) تم پر کونسی باتیں حرام کی ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو۔ ہم تمہیں بھی رزق دیں گے اور ان کو بھی۔ اور بے حیائی کے کاموں کے پاس بھی نہ پھٹکو، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی، (٨١) اور جس جان کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے اسے کسی برحق وجہ کے بغیر قتل نہ کرو۔ لوگو ! یہ ہیں وہ باتیں جن کی اللہ نے تاکید کی ہے تاکہ تمہیں کچھ سمجھ آئے۔
یعنی تم نے جو اپنی خود ساختہ شریعت بنا رکھی ہے جس کی تمہارے پاس کوئی علمی یا عقلی دلیل نہیں اور محض ظن و گمان کی بناء پر حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا رکھا ہے۔ بلکہ حرام تو وہ چیزیں ہیں جن کو تمہارے رب نے حرام کیا ہے۔ کیونکہ تمہارا پیدا کرنے والا، پالنے والا وہی ہے اور ہر چیز کا علم بھی اُسی کے پاس ہے۔ اس لیے اسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال اور جس چیز کو چاہے حرام کرے، چنانچہ میں تمہیں ان باتوں کی تفصیل بتاتا ہوں جن کی تاکید تمہارے رب نے کی ہے۔ مشرکین میں شرک کی تمام قسمیں پائی جاتی ہیں: پہلی بات (لَّا تُشْرِكُوْا) کہ کسی کو بھی اللہ کا شریک نہ بناؤ شرک سب سے بڑا گناہ اور ظلم ہے۔ جس کے لیے معافی نہیں۔ مشرک پر جنت حرام اور دوزخ واجب ہے۔ شرک کی تین بڑی اقسام ہیں: (۱) شرک فی الذات۔ (۲) شرک فی الصفات۔ (۳) اور شرک فی العبادات۔ شرک فی الذات: (۱) مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قراردیتے تھے۔ (۲) دیوی دیوتاؤں کواللہ سے منسوب کر رکھا تھا۔ (۳) یہود عزیر علیہ السلام کو ابن اللہ کہتے تھے۔ ان کے عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ عزیر کے جسم میں حلول کر گیا ہے۔ شرک فی الصفات: اللہ تعالیٰ کی طرح کسی دوسری ہستی کو بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا جائے، یعنی جو کسی کی بگڑی بنا بھی سکتا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ اس ہستی کو عالم الغیب اور حاضر ناظر بھی سمجھا جائے ۔ شرک فی العبادات: جس ہستی کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھا جائے اُسے فریاد کے طور پر پکارے۔ اس کی قربانی اور نذر و نیاز دے۔ ان کی پرستش و تعظیم اس طرح کرے جیسے اللہ تعالیٰ کی کی جاتی ہے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ ’’جو تو حید پر مرے، وہ جنتی ہے۔‘‘ (بخاری: ۱۲۳۷، مسلم: ۹۴) ﴿يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ﴾ (لقمان: ۱۳) اے میرے چھوٹے بیٹے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾ (النساء: ۴۸) اللہ بس شرک کو ہی معاف نہیں کرتا وہ جس کو چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔ ترمذی کی روایت ہے کہ ’’رب تعالیٰ فرماتے ہیں: اے آدم کے بیٹے تو مجھے دنیا بھر گناہوں کے ساتھ ملے مگر کسی کو شریک نہ کیا ہو میرے ساتھ تو میں تجھے دنیا بھر معافی دوں گا۔‘‘ (ترمذی: ۳۵۴۰) والدین سے حسن سلوک: اللہ تعالیٰ نے توحید کے بعد اس آیت میں اور قرآن کریم میں کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اطاعت رب کے بعد اطاعت والدین (ربوبیت صغریٰ)کی بڑی اہمیت ہے اگر کسی نے والدین کے حقوق اور حسن سلوک کے تقاضے پورے نہیں کیے تو وہ (ربوبیت کبریٰ) اللہ کے تقاضے بھی پورے کرنے میں ناکام رہے گا۔ ’’رب کی رضا باپ کی رضا میں ہے‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا کہ حسن سلوک کا زیادہ مستحق کون ہے۔ فرمایا! تمہاری ماں تین مرتبہ فرمایا پھر تمہارا باپ۔ (بخاری: ۵۹۷۱) قتل اولاد سے روکا: ابن مسعود نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ’’اللہ کے ساتھ شریک کرنا حالانکہ اُسی اکیلے نے پیدا کیا ہے پوچھا پھر کونسا گناہ ہے۔ اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ میرے ساتھ کھائے گی، پوچھا پھر کونسا گناہ؟ فرمایا اپنے پڑوس کی عورت سے بدکاری کرنا، فرمایا: ﴿وَ لَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِيَّاكُمْ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا﴾ (بنی اسرائیل: ۳۱) ’’اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو، ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں یقینا ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔‘‘(بخاری: ۴۷۶۱) فواحش کے قریب نہ جاؤ: ایسے وسائل بھی اختیار نہ کرو جو تمہیں بے حیائی کے کاموں کے قریب لے جائیں اور جنسی جذبات میں تحریک پیدا کریں جیسے بے حجابی، غیر محرم عورت کی طرف دیکھنا، تماش بینی، سینما، ٹی وی جنسی لڑیچر کا مطالعہ، عورتوں کی تصاویر کی عام نشر وا شاعت سب فواحش کے زمرے میں آتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’آنکھوں کا زنا (غیر عورتوں کو دیکھنا) کانوں کا زنا (فحاشی کی باتیں سننا)، زبان کا زنا (فحاشی کی بات چیت کرنا)۔ ہاتھ کا زنا (بُری اشیاء کو پکڑنا) پاؤں کا زنا (برائی کی طرف چلنا) دل کا زنا (برائی کی خواہش اور تمنا کرنا) پھر شرمگاہ: ان سب کی یاتو تصدیق کردیتی ہے یا تکذیب۔ (مسلم: ۲۶۵۷) نیز آپ نے فرمایا: ـ’’اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں اس لیے تو اس نے بے حیائی کے تمام کاموں کو حرام کردیا۔‘‘ (بخاری: ۷۴۰۳) نیز سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان كرتی ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے محمد! اللہ کو سب سے زیادہ غیرت اس بات پر آتی ہے جب وہ اپنے کسی بندے یا بندی کو زنا کرتے دیکھتا ہے۔ (بخاری: ۵۲۲۱) ناحق قتل نہ کرو: قرآن کی رو سے تین صورتوں میں قتل کرنا حق اور جائز ہے۔ (۱) قتل عمد کے قصاص کی صورت میں قتل کا بدلہ قتل۔ (۲)میدان میں کفار کا قتل۔ (۳)شادی شدہ ہوکر زنا کرے۔ بخاری میں رسول اللہ نے اس گناہ کو سات بڑے ہلاک کرنیوالے گناہوں میں تیسرے نمبر پر شمار کیا ہے۔