ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
(مویشیوں کے) کل آٹھ جوڑے اللہ نے پیدا کیے ہیں، دو صنفیں (نر اور مادہ) بھیڑوں کی نسل سے اور دو بکریوں کی نسل سے۔ ذرا ان سے پوچھو کہ : کیا دونوں نروں کو اللہ نے حرام کیا ہے، یا دونوں مادہ کو؟ یا ہر اس بچے کو جو دونوں نسلوں کی مادہ کے پیٹ میں موجود ہو؟ اگر تم سچے ہو تو کسی علمی بنیاد پر مجھے جواب دو۔ (٧٥)
اسلام سے پہلے عربوں کی جاہلیت بیان ہورہی ہے۔ کہ انھوں نے اپنے طور پرتقسیم کرکے چوپائے جانوروں میں بہت سے حلال بنا لیے اور بہت سے حرام کر لیے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا: ’’ان سے پوچھو کہ ایک ہی جنس کا نر تو حلال ہو اور مادہ حرام ہو یا مادہ حلال ہو اور نر حرام، یا جانور خود تو حلال ہو مگر اس کے پیٹ سے نکلا ہوا بچہ زندہ ہو تو کسی (مرد) پر حلال اور کسی پر حرام اور مردہ ہو تو وہ سب کے لیے حلال ہو۔ کیا اللہ ایسی لغو باتوں کا حکم دے سکتا ہے کیا تم ایسے غیر معقول احکام کسی آسمانی کتاب میں دکھا سکتے ہو۔