وَكَذَٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُوا عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ ۖ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
اور اسی طرح بہت سے مشرکین کو ان کے شریکوں نے سجھا رکھا ہے کہ اپنی اولاد کو قتل کرنا بڑا چھا کام ہے، تاکہ وہ ان (مشرکین) کو بالکل تباہ کر ڈالیں، اور ان کے لیے ان کے دین کے معاملے میں مغالطے پیدا کردیں۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرسکتے۔ (٦٧) لہذا ان کو اپنی افترا پردازیوں میں پڑا رہنے دو۔
قتل اولاد کی وجوہ: دور جاہلیت میں اولاد کو تین وجوہ کی بناء پر قتل کیا جاتا تھا۔ (۱)بیٹیوں کو عار کی وجہ سے کہ کوئی نہ کوئی داماد بنے گا جس کے آگے آنکھیں نیچی کرنی پڑیں گی۔ اگر دوسرے قبیلے میں چلی گئی تو کئی پیچیدہ مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ کیونکہ قبائلی نظام عصبیت کے سہارے چلتا اور جھگڑوں اور جنگوں پر ختم ہوتا تھا۔ (۲)اس ڈر سے اولاد کو مار دیتے کہ ان کی پرورش کیسے کریں گے یا اپنا معیار زندگی برقرار نہ رکھ سکیں گے۔ آج اس جرم میں تقریباً پورا معاشرہ شریک ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی، اسقاط حمل، مردوں کو بانجھ بنانا وغیرہ کہ یہ سب کچھ فقر و افلاس کے انہی اندیشوں کی بنا پر کیا جا رہا ہے۔ (۳) بتوں کے نام پر منت یعنی اگر میرے ہاں اتنے بیٹے پیدا ہو ں تو میں ایک بیٹا فلاں بت کے حضور قربان کروں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب نے بھی یہ منت مانی تھی کہ اگر میرے بارہ بیٹے ہوئے تو میں ایک بیٹے کی قربانی دونگا۔ پھر اس منت کا قرعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کے نام نکلتا تھا جو بالآخر سو اونٹ کی دیت پر ختم ہوا۔ اللہ کے شریک: مندرجہ بالا رسوم کے موجد اللہ کے شریک ٹھہرے۔ کیونکہ قانون سازی کا اختیار تو صرف اللہ کو ہے۔ ان لوگوں کا جرم صرف یہی نہیں تھا کہ اپنی اولاد کو قتل کرتے تھے بلکہ اس سے بڑا جرم ایسے کاموں کو جرم سمجھنے کی بجائے اپنی فلاح و بہبود کے کام سمجھتے تھے۔ اللہ کو اگر منظور ہوتا: یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اختیارات اور قدرت سے، ان کے ارادہ و اختیار کی آزادی سلب کرلیتا تو پھر یقینا وہ یہ کام نہ کرتے، لیکن ایسا کرنا چونکہ جبر ہوتا جس میں انسان کی، آزمائش نہیں ہوسکتی تھی، جب کہ اللہ انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر آزمانا چاہتا ہے۔