وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
اور اللہ نے جو کھیتیاں اور چوپائے پیدا کیے ہیں ِ ان لوگوں نے ان میں سے اللہ کا بس ایک حصہ مقرر کیا ہے۔ (٦٦) چنانچہ بزعم خود یوں کہتے ہیں کہ یہ حصہ تو اللہ کا ہے، اور یہ ہمارے ان معبودوں کا ہے جن کو ہم خدائی میں اللہ کا شریک مانتے ہیں۔ پھر جو حصہ ان کے شریکوں کا ہوتا ہے، وہ تو (کبھی) اللہ کے پاس نہیں پہنچتا، اور جو حصہ اللہ کا ہوتا ہے، وہ ان کے گھڑے ہوئے معبودوں کو پہنچ جاتا ہے۔ ایسی بری بری باتیں ہیں جو انہوں نے طے کر رکھی ہیں۔
بدعت کا آغاز: ہر چیز کا خالق اللہ ہے یہ جانتے ہوئے بھی صدقہ و خیرات کرتے وقت اللہ کا حصہ الگ مقرر کر رکھا تھا اور اپنے دیوی دیوتاؤں کا الگ۔ دوسرا ظلم وہ یہ کرتے کہ اللہ کا حصہ اس لیے نکالتے کہ مویشیوں کو پیدا کرنے والا وہ ہی ہے۔ اور بتوں، دیوی، دیوتاؤں کا اس لیے کہ انھیں جو کچھ مل رہا ہے ان ہی کی نظر کرم کی وجہ سے مل رہا ہے۔ اس کے علاوہ اگر اللہ کے نام کا ٹھہرایا ہوا حصہ بتوں کے نام والے میں شامل ہوگیا تو وہ تو بتوں کا ہوا اور اگر بتوں کے نام کا حصہ اللہ کے حصہ میں مل گیا تو اسے فوراً نکال لیتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ دیوی دیوتا ہمارے نفع و نقصان کے مالک ہیں اور اصل شرک یہ ہی ہے۔ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ میں اپنے حصہ داروں کی نسبت اپنا حصہ لینے سے بے نیاز ہوں جس شخص نے ایسا عمل کیا، جس نے میرے ساتھ غیر کو حصہ دار بنایا تو میں اس صاحب عمل اور اس عمل دونوں کو ہی چھوڑ دیتا ہوں۔ (مسلم: ۲۹۸۵) مشرکانہ رسم میں جرائم: تین طرح سے کرتے تھے۔ (۱)مالی عبادت میں اللہ کے ساتھ اپنے معبودوں کو شریک بنانا۔ (۲) اللہ کا الگ اور معبودوں کا الگ حصہ مقرر کرنا۔ (۳) اللہ کے حق میں نا انصافی کرنا۔ اس کے علاوہ ایک غلطی یہ بھی تھی کہ اللہ کے لیے لڑکیاں ہیں اور اپنے لیے لڑکے یہ کیسے ممکن ہے کہ لڑکے تو تمہارے ہوں اور جن لڑکیوں سے تم بیزار ہو وہ اللہ کی ہوں ۔ کیسی بُری تقسیم ہے۔