وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ
اور پھر و (وہ معاملہ یاد کرو) جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے تم سے عہد لیا تھا : آپس میں ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور نہ اپنے آپ کو (یعنی اپنی جماعت کے افراد کو) جلا وطن کرو گے۔ تم نے اس کا اقرار کیا تھا اور تم (اب بھی) یہ بات مانتے ہو۔
یہودی بگڑے ہوئے لوگ تھے تعصبات کی وجہ سے گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان سے پختہ عہد لیا کہ تم اپنے بھائی بندوں کو گھروں سے بے دخل نہیں کرو گے نہ آپس میں لڑائی مار کٹائی کروگے۔ یہود كے یہ تین قبیلے آپس میں جھگڑتے رہتے تھے۔ (۱) بنو نضیر (۲) بنو قریظہ (۳) بنو قینقاع اور پختہ عہد کرکے بھی وہ یہ کام کرتے تھے: (۱)خون خرابہ کرتے۔( ۲) ایک دوسرے کو جلا وطن کردیتے تھے۔ (۳) ظلم اور زیادتی پر مظلوم کی مدد نہیں کرتے تھے۔ (۴) فدیہ دیکر قیدیوں کو چھڑایا کریں۔ یہ قیدیوں کو تو چھڑالیتے تھے کہ یہ اللہ کا حکم ہے لیکن باقی تین کام اپنی خواہش کے مطابق کرتے تھے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی سے بچو یہ سب سے زیادہ چھوٹی بات ہے، ظاہری، باطنی عیب، حسد ، بغض سے روگردانی کرو اور اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔ (بخاری: ۵۱۴۳، مسلم: ۲۵۶۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں جس نے تعصب کی طرف بلایا ، تعصب کی وجہ سے جنگ کی اور جو تعصب پر مرجائے وہ بھی ہم میں سے نہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کسی قوم کی دشمنی تمہیں مجبور نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔(ابوداؤد: ۵۱۲۳)