وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ ۘ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ۗ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِندَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ
اور جب ان (اہل مکہ) کے پاس (قرآن کی) کوئی آیت آتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ : ہم اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ اس جیسی چیز خود ہمیں نہ دے دی جائے جیسی اللہ کے پیغمبروں کو دی گئی تھی۔ (٥٦) (حالانکہ) اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی پیغمبری کس کو سپرد کرے۔ جن لوگوں نے (اس قسم کی) مجرمانہ باتیں کی ہیں ان کو اپنی مکاریوں کے بدلے میں اللہ کے پاس جاکر ذلت اور سخت عذاب کا سامنا ہوگا۔
کفار کا مطالبہ رسالت: یعنی ان کے پاس بھی فرشتے وحی لے کر آئیں اور ان کے سروں پر بھی نبوت و رسالت کا تاج رکھا جائے۔ ایمان اور اطاعت کے بغیر انبیاء جیسا مقام چاہتے ہیں رسولوں جیسا علم چاہتے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا تو اللہ ہی کا کام ہے کہ کس کو نبی بنایا جائے کیونکہ وہی ہر بات کی حکمت و مصلحت کو جانتا ہے اور اسے ہی معلوم ہے کہ کون اس منصب کا اہل ہے۔ جب بھی رسولوں کو نبوت ملی انھیں پہلے سے اس کا علم نہیں تھا۔ نہ نبوت ذاتی کوششوں سے ہی ملتی ہے۔ یہ تو رب کی رحمت سے ملتی ہے اللہ جانتا ہے کہ نبوت مکہ کے رئیس کو یا جناب عبداللہ اور حضرت آمنہ کے درِ یتیم کو ملنی ہے۔ یہ لوگ جو کچھ کررہے ہیں تکبر اور سرکشی کی بنا پر کررہے ہیں حق کے راستے میں مکر و فریب کے جوکانٹے بچھا رہے ہیں اس کی پاداش میں ذلت و رسوائی کے عذاب سے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دوچار ہونا پڑے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن ہر دھوکے باز کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا یہ فلاں فلاں کا دھوکے باز ہے۔ (بخاری: ۶۱۷۷)