وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا ۖ وَمَا يَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ
اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے مجرموں کے سرغنوں کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ اس (بستی) میں (مسلمانوں کے خلاف) سازشیں کیا کریں۔ (٥٥) اور وہ جو سازشیں کرتے ہیں، (درحقیقت) وہ کسی اور کے نہیں، بلکہ خود ان کے اپنے خلاف پڑتی ہیں، جبکہ ان کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔
اکابر: اکابر سے مراد کافروں اور فاسقوں کے سر پنچ ہیں کیونکہ یہی انبیاء اور داعیان حق کی مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ اور عام لوگ تو صرف ان کے پیچھے لگنے والے ہوتے ہیں اس لیے ان کا بطور خاص ذکر کیا ہے اس کے علاوہ ایسے لوگ دنیاوی دولت اور خاندانی وجاہت کے اعتبار سے بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ اور یہی لوگ اللہ کے نزدیک سب سے بڑے مجرم ہوتے ہیں حق کی دعوت سے ان کی سرداری پر کاری ضرب لگتی ہے جیسے فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے معجزات دیکھ کر کہہ دیا کہ یہ تو جادو ہے اور اسکا مقصد حکومت پر قبضہ کرنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کی شرارت کا وبال ان پر اور ان کے پیچھے لگنے والوں پر ہی پڑے گا۔ قوم نوح، قوم ہود، قوم لوط، قوم شعیب جیسے بڑے مجرم صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے۔