أَوَمَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
ذرا بتاؤ کہ جو شخص مردہ ہو، پھر ہم نے اسے زندگی دی ہو، اور اس کو ایک روشنی مہیا کردی ہو جس کے سہارے وہ لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہو (٥٤) کیا وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ وہ اندھیروں میں گھرا ہوا ہو جن سے کبھی نکل نہ پائے ؟ اسی طرح کافروں کو یہ سجھا دیا گیا ہے وہ جو کچھ کرتے رہے ہیں، وہ بڑا خوشنما کام ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافر کو میت (یعنی مردہ) اور مومن کو حيی(یعنی زندہ) قراردیا ہے۔ اس لیے کہ کافر کفر و ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے اور اسے ان تاریکیوں سے نکلنے کی کوئی راہ بھی نہیں مل رہی اور جس کا نتیجہ تباہی و بربادی اور ہلاکت ہے۔ اور مومن کے دل کو اللہ تعالیٰ ایمان کے ذریعے سے زندہ فرمادیتا ہے۔ جس سے زندگی کی راہیں اس کے لیے روشن ہوجاتی ہیں۔ اور وہ ایمان و ہدایت کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ کامیابی و کامرانی ہے۔ پھر کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں قرآن پاک میں ان آیات میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے: ﴿اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اَوْلِيٰٓـُٔهُمُ الطَّاغُوْتُ يُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ﴾ (البقرۃ: ۲۵۷) ’’اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے اور وہ انھیں (کفر و شرک) اندھیروں سے نکال کر (اسلام کی) روشنی کی طرف لے آتا ہے ۔ اور جنھوں نے کفر اختیار کیا ہے ان کے دوست طاغوت ہیں جو انھیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ مَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَ الْبَصِيْرُ۔ وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوْرُ۔ وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الْحَرُوْرُۚ۔ وَ مَا يَسْتَوِي الْاَحْيَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَآءُ وَ مَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ۔ اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِيْرٌ﴾ (فاطر: ۱۹۔ ۲۳) ’’اور اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں، اور نہ تاریکی اور روشنی، اور نہ چھاؤں اور نہ دھوپ، زندہ اور مردے برابر نہیں ہو سکتے، اللہ جس کوچاہتا ہے سنا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں، آپ تو صرف ڈرانیوالے ہیں۔‘‘ ایک روایت میں آتا ہے: ’’اللہ نے اپنی اُمت کو پیدا کرکے اس پر اپنا نور ڈالا وہ روشن ہوگیا اور جو وہاں نور سے محروم رہا وہ گمراہی میں چلا گیا۔‘‘ (مسند احمد: ۲/ ۱۷۶، ح: ۶۶۵۲، ترمذی: ۲۶۴۲، مستدرک حاکم: ۵۷۳۲)